اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:


(۱) كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ۔ (البقرہ۔۲۱۶)
قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلاسمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(۲) وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرہ۔۲۴۴)
اور لڑو اللہ کے راستے میں اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
(۳) وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (البقرہ۔۲۵۱)
اور اگر اللہ تعالیٰ کا بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو دفع کرانا نہ ہوتا تو زمین فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ تعالیٰ جہاں والوں پر بڑے مہربان (کہ انہوں نے جہاد کا حکم نازل فرما کر فساد کے خاتمے اور امن کے قیام کی صورت پیدا فرما دی)

حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میرے امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے۔ (١) حسب پر فخر کرنا، (٢) نسب پر طعن کرنا (٣) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (٤) نوحہ کرنا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر قطران اور خارش کا کرتا ہو گا۔ (مسلم)

عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَقَالَ بِإِصْبَعَیْہِ السَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطَی.(بخاری،رقم ۶۰۰۵)
سھل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ۔ آپ نے اپنی دو انگلیوں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔

رسول اللہ (صلى الله عليه و سلم) کی یہ حدیث  ۔فرمایا:

”اِذَاتَبَایَعتُم بِالعِینَةِ وَاَخَذتُم اَذنَابَ البَقَرِ وَرَضِیتُم بِالزَّرعِ وَتَرَکُم الجِھَادَ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیکُم ذُلاًّ لاَ یَنزِعُہُ حَتَّی تَرجَعُو اَلَی دَیَنکُم “

”جب تم نے بیع عینہ شروع کردی (یعنی ایسی تجارت جس میں کوئی چیز وقت مقررہ کے لیے بیچ کر کم قیمت پر اس سے دوبارہ خریدنا شامل ہے)اور تم نے بیلوں کی دمیں پکڑ لیں اور کھیتی باڑ ی میں مشغول ہو گئے اور اللّه کے دین کے لئے جدّّ و جہد کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے اوپرذلت ومسکنت مسلط کر دے گا جو اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف پلٹ  نہ آﺅ۔
یعنی  دنیا کی چیزوں کو ہی اپنا سب کچھ مان لیں گے اور دین کو پیچھے چھوڑ دیں گے 
ہے career و  business گاۓ کا دم کا مطلب

رسول اللہ(صلى الله عليه و سلم)فرماتے ہیں :

”وَتَرَکتُمُ الجِھَادَ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیکُم ذُلاَّ لاَیَنزِعُہُ حَتَّی تَرجِعُوا دِینَکُم “

”اور اگر تم نے جہاد چھوڑدیاتو اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ذلت مسلط کر دے گااور اس وقت تک یہ حالت ختم نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہ آﺅ۔“

ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’

قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمہارے خلاف (لڑنے کے لیے) دوسری قوموں کو بلائیں جس طرح کھانے والے کھانے کے برتن کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں ۔‘‘ کسی نے عرض کیا: اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟ آپﷺ نے فرمایا:’’ نہیں ، بلکہ اس روز تم زیادہ ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔‘‘کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول وہن کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:’’ دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘ ابوداؤد : 4297

عرشِ الٰہی کے سائے میں کون ہوں گے؟

”عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ اورعن ابی سعید رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال: سبعة یظلہم اللہ فی ظلہ یوم لاظل الا ظلہ: امام عادل‘ وشاب نش بعبادة اللہ‘ ورجل کان قلبہ معلقاً بالمسجد اذا خرج منہ حتی یعود الیہ‘ ورجلان تحاباّ فی اللہ فاجتمعا علی ذلک وتفرّقا‘ ورجل ذکر اللہ خالیاً ففاضت عیناہ‘ ورجل دعتہ امرة ذات حسب وجمال فقال: انی اخاف اللہ‘ ورجل تصدق بصدقة فاخفاہ حتی لاتعلم شمالہ ما تنفق یمینہ: ہذا حدیث حسن صحیح “۔ (ترمذی‘ ج:۲‘ ص:۶۲)

ترجمہ:”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اس میں راوی کو شک ہے‘ مگر دوسری روایت میں تعیین ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے) کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش کے) سائے میں {قیامت کے دن } جگہ دیں گے‘ جس دن کہ عرش ِ الٰہی کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا (یعنی قیامت کے دن اور وہ سات آدمی یہ ہیں): 1:حاکم عادل۔ 2:وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پھلا پھولا۔ 3:وہ شخص جو مسجد سے نکلے تو اس کا دل مسجد میں اٹکا رہے‘ یہاں تک کہ دوبارہ مسجد میں چلا جائے۔ 4: وہ دو آدمی جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں دوستی کی‘ اس کے لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ 5: وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ 6: وہ شخص جس کو کسی صاحبِ حسب ونسب اور صاحبِ حسن وجمال خاتون نے غلط دعوت [حرام کاری کرنے کی] دی‘ مگر اس نے یہ کہہ کر اس کی دعوت رد کردی کہ: میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ 7: اوروہ شخص جس نے صدقہ کیا تو اس کو ایسا چھپا یا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟“۔

اچھی صحبت اختیار کرنے کا حکم

حضرت ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((لاتصاحب الا مؤمناولا یأکل طعامک الا تقی)) [ابوداؤد،ترمذی]
’’صرف مومن شخص کی صحبت اختیار کر،اور تیرا کھانا صرف متقی شخص کھائے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((الرجل علی دین خلیلہ فلینظر أحدکم من یخالل))[ابوداؤد،ترمذی]
’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے،پس چاہئیے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے دوست کو دیکھے۔‘‘
حضرت ابوموسی أشعری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((المرء مع من أحب))
’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ محبت کرتا ہے اسے اس قوم کے ساتھ ملحق کیوں کر دیا جاتا ہے؟تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((المرء مع من أحب))’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں
یاَاَیُّھاَالَّذِیْنَ اٰ مَنوُ اتّقُواللہ وَ کُوْنُوْ مَعَ الصَّادِقِیْنَ
” اے ایمان والوں ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ”

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ​
” المرء مع من احبّ ” ( آدمی انہی لوگوں کے ساتھ ہوگا جن سے وہ محبت کرتا ہے ”
(بخاری : جلد2،صفحہ911)