اللہ سے محبت

الحب في الله والبغض في الله 

Love and hate must be purely for the sake of Allah subhanahu wa taalaa
============================================

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔

"ایمان کی سر بلندی یہ ہے کہ الله کے لئے دوستی ہو اور الله کے لئے دشمنی ہو، الله کے لئے محبت اور الله کے لئے نفرت ہو”.

الطبرانی:صحیحہ 1728
===========
جس نے الله کے لئے محبت کی اور الله کے لئے دشمنی کی، الله کے لئے دیا اور الله کے لئے نہ دیا تحقیق اسکا ایمان کامل ہو گیا”.
رواہ ابو داود ٢٢٠/٣_٤٦٨١ 
الحاکم ١٧٨/٢ _٢٦٩٤
===========
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ:’’(اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکو کہہ دیجئے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا دعوٰی ہے تو میری پیروی کرو(اگر تم پیروی کرو گے تو )اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا،تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گاکیونکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ ال عمران313
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
“اللہ تمہیں‌جونعمتیں‌کھلاتا ہے ان کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرواور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔
(سنن ترمذی:3789 وسندحسن،ماھنامہ الحدیث:26)
اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرتے ہیں
(البقرہ 2:165)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندہ سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو ۔ جبرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر وہ تمام آسمان والوں میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندہ سے محبت کرتا ہے ۔ تم بھی اس سے محبت کرو ۔ پھر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ زمین میں بھی ( بندگان خدا کا ) مقبول اورمحبوب بن جاتا ہے…صحیح بخاری -> کتاب الادب

1:توحید و سنت سے محبت اور شرک وبدعت سے نفرت
2:نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت اور آپ کا دفاع
3:صحابہ کرام،تابعین عظام،علمائے حق اور اہل حق سے محبت
4:کتاب و سنت سے محبت اور تقوی کا راستہ
5:گناہوں‌اورنافرمانیوں‌سے اجتباب
6:ریاکے بغیر،خلوص نیت کے ساتھ عبادات میں‌سنت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہماک
7:معروف(نیکی)سے محبت اور منکرومکروہ سے نفرت
8:کتاب وسنت کے علم کا حصول اور کتاب و سنت کے مقابلے میں‌ ہر قول و فعل کو رد کردینا
9:انفاق فی سبیل اللہ (اللہ کے راستے میں‌اس کی رضامندی کے لیے مال خرچ کرنا)
10:خوف و امید کی حالت میں‌کثرت اذکار اوردعوات ثابتہ پر عمل
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دل اپنی اوراپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے بھر دے اور ہمیں‌ہمیشہ کتاب و سنت پر گامزن رکھے۔آمین
ایک ماں جتنی اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اللہ تعالی اس سے بہت زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔دیکھیئے بخاری(5999)و صحیح مسلم (2754)

اویس ہاشمی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا((لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابِّیْنَ مِثْلَ النِّکَاحِ )) رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ (صحیح)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ہم نے محبت کرنے والوں کے لئے نکاح سے زیادہ کوئی چیز موثر نہیں دیکھی ۔‘‘اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
=============
مسند احمد:جلد اول:حدیث نمبر 1
قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد فرمایا اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو۔
( يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ١٠٥؁) 5-المآئدہ:105) اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، اگر تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ شخص تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ گناہ کا کام ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو اللہ کا عذاب گھیر لے گا۔

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1 حدیث مرفوع مکررات 13 متفق علیہ 8 بدون مکرر
، علقمہ بن وقاص لیثی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اعمال کے نتائج نیتوں پر موقوف ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی، چنانچہ جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہو کہ وہ اسے پائے گا، یا کسی عورت کے لئے ہو، کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف شمار ہوگی جس کے لئے ہجرت کی ہو محبت کرو اللہ کے لئے بغض رکھو تو اللہ کے لئے ؟
رسول الله (صلی الله علیه وسلم) نے فرمایا:
جواللہ کی رضاکےلیے محبت کرتاھے،
اسکے لیے بغض رکھتا ھے،
اسی کے لیے خیرات دیتا ھے،
اوراسی کےلیے روکتا ھے،
اسکا ایمان مکمل ھو گیا.
(ابی داؤد:4681(…

حضرت عبد اللہ بن عبا سؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’أوثق عری الإیمان،الموالاۃ في اﷲ والمعاداۃ في اﷲ والحب في اﷲ والبغض في اﷲ‘‘
’’ ایمان کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے لیے دوستی ہو،اللہ کے لیے دشمنی ہو، اللہ کے لیے محبت ہو اور اللہ کے لیے بغض ہو۔‘‘
(الطبراني؛ السلسلۃ الصحیحۃ : ۱۷۲۸)
==========

ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺍﻟﻠﻪ ﻛﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻨﺪﮮ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﮧ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺷﮩﯿﺪ ﻟﯿﮑﻦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺗﺒﮯ ﭘﺮ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﮏ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ, ﯾﮧ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﻦ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﻨﺒﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺟﻠﻮﮦ ﮔﺮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ.
ﺳﻨﻦ ﺍﺑﻮ ﺩﺍﺅﺩ 3527
ﺟﻠﺪ 4
==========
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎ ﺱؓ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
’’ﺍٔﻭﺛﻖ ﻋﺮﯼ ﺍﻹﯾﻤﺎﻥ،ﺍﻟﻤﻮﺍﻻ ۃ ﻓﻲ ﺍﷲ ﻭﺍﻟﻤﻌﺎﺩﺍۃ ﻓﻲ ﺍﷲ ﻭﺍﻟﺤﺐ ﻓﻲ ﺍﷲ ﻭﺍﻟﺒﻐﺾ ﻓﻲ ﺍﷲ‘‘
’’ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﮨﻮ،ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﮨﻮ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻐﺾ
ﮨﻮ۔‘‘
)ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﻲ؛ ﺍﻟﺴﻠﺴﻠۃ ﺍﻟﺼﺤﯿﺤۃ : ۱۷۲۸(
ya sahih hiay
==========
Love for the Sake of Allah 

عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله الإمام العادل وشاب نشأ في عبادة ربه ورجل قلبه معلق في المساجد ورجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه ورجل طلبته امرأة ذات منصب وجمال فقال إني أخاف الله ورجل تصدق أخفی حتی لا تعلم شماله ما تنفق يمينه ورجل ذکر الله خاليا ففاضت عيناه

It is narrated by Abu Hurairah (may Allah be pleased with him) that Messenger of Allah (peace be upon him) said: “Seven people will be shaded by Allah under His shade on the day when there will be no shade but His. They are:
(1) A just ruler.
(2) A young man who has been brought up in the worship of Allah (alone) sincerely from childhood.
(3) A man whose heart is attached to the Masjid (i.e. who offers the five obligatory prayer in mosque).
(4) Two persons who love each other only for Allah’s sake, and they meet and part in Allah’s cause only.
(5) A man who refuses the call of a charming woman of noble birth for illegal sexual intercourse with her, and says: ‘I am afraid of Allah’
(6) A person who practices charity so secretly that his left hand does not know what his right hand has given (i.e. nobody knows how much he has given in charity).
(7) A person who remembers Allah in seclusion and his eyes get flooded with tears.”

ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن کہ سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا حاکم، عادل اور وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو اور وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لئے دوستی کریں جب جمع ہوں تو اسی کے لئے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لئے اور وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت زنا کیلئے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لئے نہیں آسکتا اور وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں۔

[Sahih Al-Bukhari, the Book of Adhan, Hadith: 660]
===========
رب کی خاطر محبوبہ کو چھوڑنے والا

حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد رضی اللہ عنہ تھا. یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھا کر لایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے . عناق نامی ایک بدکار عورت مکہ میں رہا کرتی تھی. جاہلیت کے زمانہ میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا. حضرت مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا. ایک باغ کی دیوار کے نیچے میں پہنچ گیا. رات کا وقت تھا چاند اپنے حسن سے جہان کو منور کررہا تھا. اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا، بلکہ پہچان بھی لیا. اور آواز دے کر کہا : کیا تو مرثد ہے ؟ میں نے کہا : ہاں مرثد ہوں . اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی . چلو رات میرے پاس گزارنا. میں نے کہا : عناق اللہ تعالی نے زنا کاری حرام کر دی ہے. جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا اور آواز دی اے خیمے والو ہوشیار ہوجاؤ. دیکھو چور آگیا ہے یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرایا کرتا ہے. لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے . میں مٹھیاں بند کرکے
خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا . یہ لوگ میرے پیچھے ہی غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا . یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے . واہ ! ان کا پیشاب میرے سر پہ آرہاتھا. لیکن اللہ تعالی نے انہیں اندھا کردیا. ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں.اِدھر اُدھر ڈھونڈ کر واپس چلے گئے . میں نے کچھ دیر گزارکر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سو گئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا. پھر مکہ کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا. چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا. میں نے انہیں کمر سے اتار کر انکے بندھن کھول دئیے اور آزاد کردیا. اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا. چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں . آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے . میں نے دوبارہ یہی سوال کیا ، پھر بھی خاموش رہے اور یہ آیت اتری:
”زانی،زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے . عورت زانیہ سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے . اور مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے.”
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مرثد !زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے . تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے. (ترمذی شریف)
(تفسیر ابن کثیر)
==========
ﻋَﻦْ ﺍَﺑِﯽْ ﺍُﻣَﺎﻣَﺔَ Bﻗَﺎﻝَ:ﻗَﺎﻝَ ﺭَﺳُﻮْﻝُ ﷲِ”: ﻣَﺎ ﺍَﺣَﺐ َّ ﻋَﺒْﺪ ﻋَﺒْﺪًﺍ ِﷲِ ﺍِﻟَّﺎ ﺍَﮐْﺮَﻣَﮧُ ﷲُ۔”
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺍﻣﺎﻣﮧbﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﷲ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ”:ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﻨﺪﮦ ﷲﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺑﻨﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎﮨﮯ ﺗﻮﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔”
(ﺍﺣﻤﺪ)
==========

"اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کی پہچان یہ ہےکہ کسی آدمی کی دینداری،علم،کثرت عبادت،حسن اخلاق اور لوگوں کے ساتھ بہترین معاملات کی بنا پر محبت کی جائےگویا یہ اس کی ایمان باللہ اور فرمانبرداری کی بنا پر محبت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے بغض کی پہچان اس کے گناہوں اور دین کے معاملات کو حقیر جاننے کی وجہ سے اس سے نفرت کی جائے۔اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت اور دشمنی ایمان کا مضبوط ترین کڑا ہے،اس لیے ہم پر فرض ہےکہ ہماری محبت اور دشمنی کا معیاراللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور دشمنی کی بنا پر ہو،اللہ کے محبوب بندے سے محبت کرنا ضروری ہے،اگرچہ طبعی میلان اس کی طرف نہ بھی ہواسی طرح اللہ کو جو پسند نہیں اس سے نفرت ضروری ہےاگرچہ ہمارا اس کی طرف طبعی میلان ہویہی وہ چیز ہے جسے مضبوط کڑا تھامنے سے تعبیر کیا گیا ہے‘‘
——————–
*** اللہ کے لیے کسی مومن سے محبت کرنے والا***
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:
(( أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَہُ فِيْ قَرْیَۃٍ أُخْرٰی فَأَرْصَدَ اللّٰہُ لَہُ عَلیٰ مَدْرَجَتِہِ مَلَکًا فَلَمَّا أَتٰی عَلَیْہِ قَالَ: أَیْنَ تُرِیْدُ؟ قَالَ: أُرِیْدُ أَخًا لِيْ فِيْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ۔ قَالَ: ھَلْ لَکَ عَلَیْہِ مِنْ نِعْمَۃٍ تَرُبُّھَا؟ قَالَ: لَا غَیْرَ أَنِيْ أَحْبَبْتُہُ فِيْ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔ قَالَ: فَإِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَیْکَ بِأَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَہُ فِیْہِ۔ ))1
” ایک شخص اپنے بھائی کی ملاقات کے لیے دوسرے گاؤں کی طرف گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی راہ میں ایک فرشتہ کھڑا کردیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اس فرشتے نے پوچھا: کہاں کے ارادے ہیں؟ وہ بولا: اس گاؤں میں میرا ایک بھائی ہے میں اس کو دیکھنے جارہا ہوں۔ فرشتے نے کہا: اس کا تیرے اوپر کوئی احسان ہے جس کو نبھانے کے لیے تو اس کے پاس جارہا ہے؟ وہ بولا: نہیں، کوئی احسان اس کا مجھ پر نہیں، صرف اللہ کے لیے میں اس کو پیار کرتا ہوں۔ فرشتہ بولا: میں اللہ تعالیٰ کا ایلچی ہوں اور اللہ تجھ کو بھی پیار کرتا ہے جیسے تو اس کی وجہ سے اپنے بھائی سے محبت رکھتا ہے۔ ”
شرح…: اس حدیث میں اللہ کی وجہ سے کسی کو پیار کرنے کی فضیلت واضح ہوتی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کام کی وجہ سے محبت کرنے والے انسان کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں۔
أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الحب في اللّٰہ تعالیٰ، رقم: ۲۵۴۹۔
چنانچہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
(( إِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَیْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَالِيْ الْیَوْمَ أُظِلُّھُمْ فِيْ ظِلِّيْ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلاَّ ظِلِّيْ۔ )أخرجہ مسلم في کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: فضل الحب في اللّٰہ تعالیٰ، رقم: ۲۵۴۸۔
” اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور اطاعت کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے؟ میں انہیں آج اپنا سایہ نصیب کروں گا کہ آج کے دن سوائے میرے سائے کے کسی کا سایہ نہیں۔ ”
مزید فرمایا:
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: (( حُقَّتْ مُحَبَّتِيْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِيَّ، وَحُقَّتْ مُحَبَّتِيْ لِلْمُتَوَاصِلِیْنَ فِيَّ، وَحُقَّتْ مُحَبَّتِيْ لِلْمُتَنَاصِحِیْنَ فِيَّ، وَحُقَّتْ مُحَبَّتِيْ لِلْمُتَزَاوِرِیْنَ فِيَّ، وَحُقَّتْ مُحَبَّتِيْ لِلْمُتَبَاذِلِیْنَ فِيَّ۔ اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِيَّ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُّوْرٍ، یُغْبِطُھُمْ بِمَکَانِھِم النَّبِیُّوْنَ وَالصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّھَدَائُ۔ ))صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۴۳۲۱۔
” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: میری محبت ان کے لیے لازم کی گئی ہے جو میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میرا پیار، میری وجہ سے آپس میں صلہ رحمی کرنے والوں کے لیے ثابت کیا گیا ہے، میرے لیے ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنے والوں کے لیے میری الفت ثابت کی گئی ہے اور میری وجہ سے ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں کے لیے میری محبت ثابت کی گئی ہے۔ میری محبت، میری خوشنودی کے لیے خرچ کرنے والوں کے لیے ثابت کی گئی ہے۔ میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت و پیار کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے، ان کے اس مقام کی وجہ سے انبیاء اور صدیقین اور شہداء ان پر رشک کریں گے۔ ”
بشکریہ۔ محدث فورم