جمعہ کے احکام آداب اہمیت اور فضائل 

بسم اللہ الرحمن الرحیم


جمعہ کے احکام آداب اور فضائل 
شیخ خالد ابوصالح /ترجمہ :ظفراللہ بشیر خان ندوی 

اس امت کو اللہ تعالی نے بہت سی خصوصیات اور بہترین فضائل سے نوازا ہے ، ان میں سے ایک جمعہ کا مبارک دن بھی ہے ـ ، جس سے یہود ونصاری محروم کر دئیے گئے ـ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبی ﷺ نے فرمایا : !
{ أضل الله عن الجمعة من كان قبلنا، فكان لليهود يوم السبت، وكان للنصارى يوم الأحد، فجاء الله بنا فهدانا ليوم الجمعة، فجعل الجمعة والسبت والأحد، وكذلك هم تبع لنا يوم القيامة، نحن الآخرون من أهل الدنيا، والأولون يوم القيامة المقضي بينهم قبل الخلائق } (مسلم ) 
”ہم میں سے پہلے جو امتیں تھیں انہیں جمعہ کے مبارک دن سے محروم کر دیا گیا ، یہود کے لئے ہفتہ اور نصاری کے اتوار کا دن تھا ، پھر اللہ تعالی ہمیں لایا اور جمعہ کا دن عنایت فرمایا ، پھر ترتیب میں جمعہ ، ہفتہ اور اتوار کردیا ، اور اس طرح وہ قیامت کے دن ہمارے پیچھے ہونگے ، حالانکہ ہم دنیا میں تمام امتوں میں سے سب سے آخر میں آئے ،لیکن قیامت کے روز تمام مخلوق میں سے سب سے پہلے ہمارا فیصلہ ہوگا ”

عبادت کا دن 
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا !
( إنما سُميت الجمعة جمعة لأنها مشتقة من الجَمْع، فإن أهل الاسلام يجتمعون فيه في كل أسبوع مرة بالمعاهد الكبار… وقد أمر الله المؤمنين بالاجتماع لعبادته) 
” جمعہ کا نام اس لئے جمعہ رکھا گیا ہے کیونکہ یہ جمع سے مشتق ہے ، یہ اس لئے کہ اس میں مسلمان ہفتہ میں ایک مرتبہ بڑی مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں ــــــ اور اللہ تعالی نے مومنوں کو عبادت غرض سے جمع ہونے کا حکم دیا ہے”
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يا أيها الذين آمنوا إذا نودى للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله [الجمعة:9]
” ائے ایمان والو! جب جمعہ کے دن اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو” ـ ”دوڑ پڑو” سے مراد یہ ہے کہ نماز کا ارادہ اور اس کا اہتمام کرو ، اس سے مراد یہ نہیں کہ زور لگا کر دوڑو ـــــ جبکہ نماز کے لئے بھی تیز چلنا منع ہے ـــــ ”
حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا ! اللہ کی قسم ! دوڑ پڑو سے مراد قدموں کی دوڑ نہیں ہے ، بلکہ نماز کے لئے سکون اور اطمینان ، خالص نیت اور خشوع و خضوع کے ساتھ جانا مراد ہے ”(تفسیر ابن کثیر4/385،386)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا :
( فيوم الجمعة يوم عبادة، وهو في الأيام كشهر رمضان في الشهور، وساعة الإجابة فيه كليلة القدر في رمضان )
”جمعہ کادن عبادت کا دن ہے ، دنوں میں اسکی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے اور مہینوں میں رمضان کی ، اور اس دن دعا کی قبولیت کی ایک گھڑی ایسی ہی ہے جیسا کہ ماہ رمضان میں شب قدر”(زاد المعاد1/398)

یوم جمعہ کے فضائل 
1-یقننا یہ بہترین دن ہے : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” 
{ خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه أدخل الجنة، وفيه أخرج منها، ولا تقوم الساعة إلا في يوم الجمعة } [مسلم].
”بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے ، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے ، اور اسی دن وہ جنت میں داخلے کئے گئے ، اور جنت سے اسی دن نکالے گئے ، اور قیامت بھی جمعہ کے دن ہی قائم ہوگی ”
2-اس دن جمعہ کی نماز ہے جو کہ اسلام کے فرائض میں سے ایک ایک فریضہ ہے اور اس دن مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہوتا ہے ،جو اس نماز کو سستی سے چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالٰی اس کے دل پر مہر لگادیتا ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے ـ 
3-اس میں ایک گھڑی دعا کی قبولیت ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی ﷺ ے فرمایا ” 
{ إن في الجمعة ساعة لا يوافقها عبد مسلم وهو قائم يصلي يسأل الله شيئاً إلا أعطاه إياه – وقال بيده يقللها } [متفق عليه].
”بیشک جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کوئی مسلمان بندہ نماز کی حالت میں اللہ تعالٰی سے جو کچھ طلب کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اسکو ضرور عنایت کرتا ہے ـ اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اس وقت کے تھوڑے ہونے کا اشارہ کیا ”
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس کے تعین کے تمام اختلافات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا 
” میں ان دو اقوال کو ترجیح دیتا ہوں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں ـ
پہلا قول – امام کے منبر پر بیٹھنے سے شروع ہوکر نماز ختم ہونے تک رہتا ہے ” عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{ هي ما بين أن يجلس الإمام إلى أن تقضى الصلاة } [مسلم]
” یہ وقت امام کے منبر پربیٹھنے سے شرو ع ہو کر نماز کے ختم ہونے تک رہتا ہے ـ ” 
دوسرا قول – یہ وہ عصر کے بعد کی گھڑی ہے ، اور دونوں اقوال میں یہی زیادہ راجح ہے (زادالمعاد 1/389ِ-390)
4– عام دنوں کے صدقے سے جمعہ کے دن کا صدقہ بہتر ہے ـ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا
( والصدقة فيه بالنسبة إلى سائر أيام الأسبوع كالصدقة في شهر رمضان بالنسبة إلى سائر الشهور ) وفي حديث كعب: (… والصدقة فيه أعظم من الصدقة في سائر الأيام ) [موقوف صحيح وله حكم الرفع].
” عام دنوں کے صدقے سے جمعہ کے دن کا صدقہ بہتر ہے ـ جس طرح کہ عام مہینوں کے صدقہ سے رمضان کے صدقے کی فضیلت ہے ، کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ــــ والصدقة فيه اعظممن الصدقة في سائر الايام ” اس دن کا صدقہ دوسرے دنوں کے بہ نسبت بہت بہتر ہے (موقوف صحیح لیکن مرفوع کے حکم میں ہے )
5– مومن بندوں کے لئے جنت میں اسی دن اللہ تعالٰی جلوہ فرماتا ہے ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ 
اللہ کا یہ قول ”ولدينا مزيد” اور ہمارے پاس اور بہت کچھ ہے ” (ق،35) فرمایا :
[ق:35] قال: ( يتجلى لهم في كل جمعة ).
ہر جمعہ اللہ تعالٰی جنتیوں کے لئے تجلی فرماتا ہے ـ
6– اور یہ ایسی عید ہے جو ہر ہفتہ آتی ہے ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ نہ سے مروی ہے کہ ، رسول اللہﷺ نے فرمایا
{ إن هذا يوم عيد جعله الله للمسلمين فمن جاء الجمعة فليغتسل… } الحديث [ابن ماجه وهو في صحيح الترغيب:1/298].” اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے لئے اس کو عید کا دن بنایا ہے ، جو شخص جمعہ پائے اسے چاہے کہ وہ غسل کرے ” 
7-اس دن گناہ معاف کردئے جاتے ہیں : سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
{ لا يغتسل رجل يوم الجمعة، ويتطهر ما استطاع من طهر، ويدهن من دهنه، أو يمس من طيب بيته، ثم يخرج فلا يفرق بين اثنين، ثم يصلي ما كتب له، ثم ينصت إذا تكلم الإمام إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى } [البخاري].
” جو شخص بھی جمعہ کے دن غسل کرتا ہے ، اور ممکن حد تک پاکی حاصل کرتا ہے ، اور تیل لگاتا ہے ، یا اپنے پاس جو خوشبو میسر ہو اسکو لگاتا ہے ، پھر نماز کے لئے جاتا ہے ، دو شخصوں کے درمیان جدائی نہیں کرتا ،(یعنی اپنے لئے راستہ بنا کر آگے جانے کی غرض سے دو آدمیوں کو نہیں ہٹاتا ، بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جاتا ہے ) پھر توفیق کے مطابق نماز پڑھتا ہے ، پھر خاموشی سے خطبہ سنتا ہے تو اس جمعہ سے آئندہ جمعہ تک اس کے ہونے والے گناہ معاف کرئے جاتے ہیں ـ 
8– جمعہ ک نماز کے لیے پیدل جانے والے کو ہر قدم کے بدلے ایک سال کے صیام و قیام کا ثواب ملتا ہے ـ اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
{ من غسل واغتسل يوم الجمعة، وبكر وابتكر، ودنا من الإمام فأنصت، كان له بكل خطوة يخطوها صيام سنة، وقيامها، وذلك على الله يسير } [ أحمد وأصحاب السنن وصححه ابن خزيمة-صححه الالباني-صحيح الترغيب -693].
” جس نے غسل (جنابت) کیا اور اپنی بیوی کو کرایا ، اور نماز کے لئے جلدی گیا ، اور اپنے اہل و عیال کو لیکر گیا ، اور امام کے قریب بیٹھا اور خاموش رہا ، تو اس کے لیے ہر قسم کے بدلے ایک سال کے صیام و قیام کا ثواب ملتا ہے ـ اور یہ اللہ کے لیے آسان ہے ـ ” 
ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم [الحديد:21].
یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے وہ جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے 
9– جمعہ کے سوا ہر دن جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے اور یہ جمعہ کی عزت و عظمت کے احترام میں ہے 
[أنظر: زاد المعاد:1/387]
10– جمعہ کی رات یا دن میں موت کا آنا حسنِ خاتمہ کی علامت ہے اور اس دن انتقال کرنے قبر کے عذا سے محفوظ ہوتا ہے ـ عبداللہ بن عمر عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” 
{ ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة، إلا وقاه الله تعالى فتنة القبر } [أحمد والترمذي وصححه الألباني].
جو کوئی مسلمان جعمہ کی رات یا دن میں وفات پاتا ہے اللہ تعالٰی اس کو عذاب قبر سے بچاتا ہے ” 

جمعہ کا اہتمام 
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس دن کا اہتمام و عزت کرے اور اس دن کی فضیلتوں کو غنیمت جانے ، اللہ تعالٰی کا تقرب مختلف عبادتوں سے حاصل کرے ـ جمعہ کے مختلف آداب و احکام ہیں ـ جن کا سیکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ـ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں
( وكان من هديه تعظيم هذا اليوم وتشريفه وتخصيصه بعبادات يختص بها عن غيره، وقد اختلف العلماء هل هو أفضل أم يوم عرفة ) [زاد المعاد:1/375].
” یہ نبی ﷺ کی سنت ہے کہ اس دن کی تعظیم و تکریم ان عبادات کے ذریعہ کی جائے جسکی وجہ یہ عام دنوں سے ممتاز ہے ـ علماء میں یہاں تک اختلافات ہے کہ جمعہ افضل ہے یا یوم عرفہ ”
مسلمان بھائیو! ہم اپنے نفس کا جائزہ لیں کہ ہم نے کتنے جمعہ بغیر کسی اہتمام کے چھوڑ دئے بلکہ بہت سے لوگ اس دن کا انتظار مختلف گناہوں اور معصیوں کے لیے کرتے ہیں ـ 

جمعہ کے احکام و آداب 
1-مستحب ہے کہ جمعہ کے دن صبح کی نماز میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی مکمل تلاوت کریں ـ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ، ان سورتوں کو مختصر نہ کریں ـ جیسا کہ آئمہ مساجد میں کرتے ہیں ـ 
2– اور اس دن رسول اللہ ﷺ پر کثرت سے دور پڑھنا مستحب ہے : اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا 
{ إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه قبض، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأكثروا عليّ من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة عليّ } [أحمد وأصحاب السنن وصححه النووي وحسنه المنذري].
”تمام دنوں میں افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے اس لئے کہ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کے گئے ، اور اسی دن انکا انتقال ہو ا ، اور اسی دن صور میں پھونکا جائے گا ، اور اسی دن قیامت کی بے ہوشی قائم ہوگی ، تم اس دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو ، کیونکہ تمہار درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ”
3– جمعہ ہر مسلمان ، آزاد بالغ مرد اور مقیم پر فرض ہے ، جس مسافر پر قصر ہے اس پر جمعہ فرض نہیں ـ اور اسی طرح غلام اور عورت پر بھی ، ان میں جو شخص پڑھنا چاہے ، پڑھ سکتا ہے اور بعض حالات کی بنا پر جمعہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے ، مثلا مرض ، خوف وغیرہ کی بناء پر ”[الشرح الممتع:5/7- 24].
4– جمعہ کے دن غسل کرنا نبی ﷺ کی سنت ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا ” 
{ إذا جاء أحدكم إلى الجمعة فليغتسل } [متفق عليه].
تم میں سے کوئی شخص نماز جمعہ کے لئے آئے تو وہ ضرور غسل کرکے آئے ” 
5– ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ فرمایا :
{ من اغتسل يوم الجمعة، ومس من طيب إن كان له، ولبس من أحسن ثيابه، ثم خرج وعليه السكينة حتى يأتي المسجد، ثم يركع إن بدا له، ولم يؤذ أحداً، ثم أنصت إذا خرج إمامه حتى يصلي، كانت كفارة لما بينهما } [أحمد وصححه ابن خزيمة]
جمعہ کے دن خوشبو لگانا ، مسواک کرنا ، اچھے کپڑے پہننا جمعہ کے آداب میں سے ہے ، جس نے جمعہ کا غسل ، خوشبو (میں جو میسرہو) لگائی ، اور اچھا لباس زیب تن کیا ، سکون کے ساتھ مسجد گیا ، پھر نفل نماز پڑھی ، اور کسی کو تکلیف نہیں دی ، امام کے آتے ہی خاموش رہا یہاں تک کہ نماز ہوگئی ، تو وہ عبادت اس کے ان گناہوں کا کفارہ ہو گی جو ان دو جمعہ کے درمیان ہو چکے ہیں 
ابن سعید الخدری رض اللہ عنہ سے مروی ہے ـ 
{ غسل يوم الجمعة على كل محتلم، وسواك، ويمس من الطيب ما قدر عليه } [مسلم].
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ہر بالغ کے لئے جمعہ کا غسل کرنا، اور مسواک کرنا ، اور حسب استطاعت خوشبو لگانا واجب ہے ـ 
6-جمعہ کی نماز کے لئے جلدی جانا مستحب ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{ إذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على أبواب المسجد، فيكتبون الأول فالأول، فمثل المهجر إلى الجمعة كمثل الذي يهدي بدنة، ثم كالذي يهدي بقرة، ثم كالذي يهدي كبشاً، ثم كالذي يهدي دجاجة، ثم كالذي يهدي بيضة، فإذا خرج الإمام وقعد على المنبر، طووا صحفهم وجلسوا يسمعون الذكر } [متفق عليه].
” جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں ، مسجد میں جو سب سے پہلے جاتے ہیں ان کے نام لکھتے رہتے ہیں ، جو اول وقت مسجد میں جاتا ہے اس کا اجر ایک اونٹ صدقہ کرنے کے برابر ہے ، پھر آنے والے کا اجر گائے صدقہ کرنے کے برابر ہے ، پھر آنے والے کا اجر دنبہ صدقہ کر کرنے کے برابر ہے ، پھر آنے والے کا اجر مرغی صدقہ کرنے کے برابر ہے ، پھر آنے والے کا اجر انڈا صدقہ کرنے کے برابر ہے ، اور جب امام ممبر پربیٹھ جاتا ہے تو فرشتے دفتر لپیٹ دیتے ہیں اور خطبہ سننے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں ـ ” 
میرے بھائیوں !
کہاں ہیں نیکیاں میں مقابلہ کرنے والے ؟
کہاں ہیں نمازوں میں مقابلہ کرنے والے ؟
کہاں ہیں وہ لوگ جو اصحاب و ہمت ہیں ؟
7-امام کے خطبہ کے لئے نکلنے تک آدمی نماز، ذکر اورتلاوت قرآن میں مشغول رہے ، جیسا کہ اوپر بیان کی گئی سلیمان اور ابوایوب رضی اللہ عنہ کی احادیث سے ظاہر ہے ـ 
8– امام کے خطبہ دیتے وقت خاموش رہنا اور غور سے سننا واجب ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{ إذا قلت لصاحبك: أنصت يوم الجمعة والإمام يخطب فقد لغوت } [متفق عليه]
” جمعہ کے دن حالت خطبہ میں اگر تم اپنے ساتھی سے یہ کہو کہ – چپ رہو – تو تم نے بے ہودہ حرکت کی ” 
مسند احمدکی روایت میں ہے کہ
{ ومن لغا فليس له في جمعته تلك شيء }. وعند أبي داوود: { ومن لغا أو تخطى، كانت له ظهراً } [صححه ابن خزيمة].
” اور جس نے جمعہ میں لغو کام کیا اس کے لئے اس جمعہ کا کوئی ثواب نہیں ملتا ، اور ابوداؤد میں ہے ” جس نے لغو کیا یا گردنیں پھلانگیں ایسے شخص کے لئے وہ نماز ، ظہر کی نماز ہوجاتی ہے ـ ”
9-جمعہ دن سورہ کھف تلاوت کرنا مستحب ہے ، ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{ من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين } [الحاكم والبيهقي وصححه الألباني]
” جس نے جمعہ کے سورہ کھف تلاوت کی اس کے لئے دونوں جمعہ کے درمیان نور عطا کیا جائے جو اسے منور رکھے گئے ” 
10– مقیم کے لئے جمعہ کا وقت ہو جانے اس دن نماز جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے [زاد المعاد:1/382].
11– جمعہ کی رات کو تہجد اور دن کو روزہ کے لئے خاص کر لینا مکروہ ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا 
{ لا تخصوا ليلة الجمعة بقيام، ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام، إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم } [مسلم].
” تہجد کے لیے جمعہ کی رات کو مخصوص نہ کرو، اور عام دنوں میں صرف جمعہ کے دن روزہ نہ رکھا کرو، مگر یہ وہ اس کے عام روزہ رکھنے کے دنوں میں آئے ” 
12 – جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھنا چاہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس سے پہلے دن (جمعرات ) یا بعد والے دن (ہفتہ) کا بھی روزہ رکھے ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{ لا يصومن أحدكم يوم الجمعة، إلا أن يصوم يوماً قبله أو يوماً بعده } [متفق عليه واللفظ للبخاري].
” جمعہ کے دن کوئی شخص روزہ نہ رکھے ، مگر یہ کہ وہ اس سے پہلے دن (جمعرات ) یا بعد والے دن (ہفتہ ) کا بھی روزہ رکھے ”
13– جمعہ کی سنت ! رسول اللہ ﷺ نماز جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے (متفق عليه) اور رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ جو کوئی جمعہ کے بعد نماز پڑھنا چاہے وہ چار رکعت پڑھے [مسلم] 
امام اسحاق رحمہ اللہ نے فرمایا :
( إن صلى في المسجد يوم الجمعة صلى أربعاً، وإن صلى في بيته صلى ركعتين ). وقال أبو بكر الأثرم: ( كل ذلك جائز ) [الحدائق لابن الجوزي:2/ 183].
اگر مسجد میں پڑھیں تو چار رکعت اور اگر گھر میں پڑھیں تو دو رکعت پڑھیں اور ابوبکر الاثرم نے فرمایا ، یہ دونوں صورتیں جائز ہیں 
14– جب کوئی شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہو اور امام منبر پر خطبہ ء جمعہ دے رہا ہو تو مختصر سی دو رکعت پڑھے اور بیٹھ جائے ، جابر بن عبداللہ کی حدیث ہے ، انہوں نے فرمایا :
جاء سليك الغطفاني يوم الجمعة، والنبي يخطب، فجلس، فقال النبي : { إذا جاء أحدكم يوم الجمعة والإمام يخطب، فليصل ركعتين، ثم ليجلس } [مسلم].
”سلیک الغطفانی رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز کے لئے آئے تو اس وقت نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے ، تو وہ بیٹھ گئے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن مسجدمیں اس حال میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہوں تو وہ دو رکعت پڑھے ، پھر بیٹھ جائے ” 
15– امام کا جمعہ کی نماز میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون یا سورہ اعلی و سورہ غاشیہ کی تلاوت کرنا مستحب ہے [مسلم]

جمعہ سے متعلق بعض کوتاہیاں 
کچھ لوگوں کا جمعہ کی نماز چھوڑ دینا یا اس نمازمیں سستی کرنا : اس تعلق سے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ”
{ لينتهين أقوام عن ودعهم الجمعات أو ليختمن الله على قلوبهم ثم ليكونن من الغافلين } [مسلم].
لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ اللہ تعالٰی ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ لوگ (ہدایت سے ) غافل ہو جائیں گئے ” 
2– بعض لوگوں کا جمعہ کی نماز جاتے وقت جمعہ کی نیت نہ کرنا ؛ بعض لوگ عادت کی بناء پر جاتے ہیں حالانکہ جمعہ کی درستگی اور تمام عبادات کے لئے نیت ضروری ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا 
{ إنما الأعمال بالنيات } [البخاري].
” اعمال کا دارو مدار نت پر ہے ” 
3– جمعہ کی رات دیر تک جاگنا جس سے صبح کی نماز کے لئے بیدار نہ ہو سکیں اور نیند غالب آجائے ، تو ایسے انسان کے جمعہ کی ابتداء ہی کبائر سے ہو رہی ہے ، اور نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا
{ أفضل الصلوات عند الله صلاة الصبح يوم الجمعة في جماعة } [الصحيحة:1566].
” اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن صبح کی نماز باجماعت ہے ” 
4– خطبہء جمعہ کے لئے حاضر ہونے میں سستی کرنا ، کچھ لوگ تو خطبہ کے درمیان آتے ہیں اور بعض لوگ دورانِ نماز آتے ہیں ـ 
5-جمعہ کا غسل چھوڑ دینا ، خوشبو نہ لگانا ، اور مسواک نہ کرنا ، اور اچھے کپڑے نہ پہننا ـ 
6– جمعہ کی اذان کے بعد خریدفروخت کرنا ـ ارشاد باری تعالٰی ہے 
يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلوة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع ذلكم خير لكم ان كنتم تعلمون [الجمعة:9]
”ائے ایمان والو! جب جمعہ کے دن اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور کاروبار چھوڑ دو اگر تم سجھو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے ”
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا
يحرم البيع حينئذ ).
” وقت خریدو فروخت حرام ہے ”
7– جمعہ کے دن بعض نافرمانیاں کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کرنا ، جیسا کہ داڑھی یہ سمجھتے ہوئے مونڈھنا کہ یہ فعل جمعہ کی پاکی و صفائی میں سے ہے ـ 
8– بعض لوگوں کا ابتدائی صفیں مکمل ہونے سے پہلے پیچھےکی صفوں میں بیٹھنا ، اور بعض لوگوں کا مسجد کے برآمدوں میں بیٹھنا جبکہ مسجد کے اندر خالی جگہ موجود ہو ـ 
9– کسی آدمی کواٹھا کراسکی جگہ میں خود بیٹھنا جانا ، جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
{ لا يقيمن أحدكم أخاه يوم الجمعة، ثم يخالف إلى مقعده فيقعد فيه، ولكن يقول: افسحوا } [مسلم].
” جمعہ کے دن تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اسکی جگہ سے نہ ہٹائے ، تاکہ وہ خود اسکی جگہ میں بیٹھ جائے ، لیکن وہاں کے بیٹھنے والوں سے کہیں کہ وہ کشادگی اختیار کریں ” 
10– کندھوں کا پھلانگنا اور دو بیٹھے ہوئے افراد کو الگ کرنا ، بیٹھے ہوئے لوگوں کو تکلیف پہنچانا اور انہیں تنگ کرنا ،جیسا کہ ایک شخص کے تعلق سے جو کہ جمعہ کے دن خطبہ کے دوران میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ رہا تھا ، اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا 
{ اجلس فقد آذيت وآنيت } [صحيح الترغيب والترهيب وصحيح ابن ماجه].
” تم بیٹھ جاؤ ضرور تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی اور مشقت میں ڈالا ” ــ 
11– مسجد میں بلند آواز سےبات چیت کرنا یا قرآن کریم کا بلند آواز سے تلاوت کرنا ، جس سے نمازیوں کو یا دیگر قرآن کی تلاوت کرنے والوں کو تشویش ہو ، 
12– بلا عذر کے اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنا 
13– دورانِ خطبہ کسی دوسرے کام میں مشغول ہونا اور خطبہ خاموشی سے سننا ـ 
14– دو خطبوں کے درمیان دو رکعت نماز پڑھنا ، حالانکہ دو خطبوں کے درمیان جب امام دوسرے خطبہ کے لئے اٹھے دعا اور استغفار کرنا مشروع ہے ـ 
15– نماز کی حالت میں حرکت کرتے رہنا ، نماز کے بعد پڑھنے والے اذکار کا اہتمام کیے بغیر امام کے سلام پھیرتے ہی مسجد سے باہر نکلنے میں جلدی کرنا اور نمازیوں کے سامنے سے گزرنا اور مسجد کے دروازوں پر دھکے دینا ـ 

خطبوں کی غلطیاں ـ 
1-خطبہ کا طویل کرنا اور نماز کا مختصر پڑھانا : عماررضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا
إن طول صلاة الرجل وقصر خطبته متنه من فقهه – أي علامة – فأطيلوا الصلاة وأقصروا الخطبة، وإن من البيان سحراً } [مسلم]
” نماز کا طویل کرنا ور خطبہ کا مختصر کرنا خطیب کی دانائی کی علامت ہے ، تم نماز لمبی نہ کرو اور خطبہ مختصر کرو ،یقننا بیان میں ایک جادو ہے ” 
خطبہ دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کی ضرورتوں اور ان کے حالات کا خیال رکھے ـ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،
( كنت أصلي مع رسول الله ، فكانت صلاته قصداً، وخطبته قصداً ) [مسلم]
میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا ، آپ ﷺ کی نماز اور خطبہ درمیانہ ہوتا تھا ” ”
2– خطبہ کے لیے اچھی تیاری اور مناسب موضوع اختیار نہ کرنا اور لوگوں کی ضرورت سے ہٹ کرخطبہ دینا ـ 
3– بعض خطیبوں کاضعیف اور موضوع احادیث اپنے خطبوں میں پیش کرنا اور بغیر احتیاط کے برے الفاظ استعمال کرنا ـ 
4-بعض خطییوں کا خطبہ ثانیہ مختصر کرنا اور اسے دعا پرہی ختم کردینا ـ 
5– بعض خطیبوں کا خطبہ قرآنی آیات سے استدلال نہ کرنا جو کہ نبی ﷺ کے طریقہ کے خلاف ہے ، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی لڑکی فرماتی ہیں :
( ما حفظت ق والقرآن المجيد إلا من فِيّ رسول الله يخطب بها كل جمعة ) [مسلم].
ہر جمعہ آپ اپنے خطبہ میں سورہ ق پڑھا کرتے تھے جس کو سن کر میں نے یاد کرلیا ”
6– بعض خطیبوں کا اپنے خطبوں میں خطیبانہ طرز اختیار نہ کرنا ، جابر بن عبداللہ رضی عنہ نے فرمایا ” 
( كان رسول الله إذا خطب احمرّت عيناه، وعلا صوته، واشتد غضبه كأنه منذر جيش… ) [مسلم].
جب بھی اللہ کے نبی ﷺ خطبہ دیا کرتے تھے تو آپ کی آنکھوں سرخ ہو جاتیں اور آپ کی آواز بلند ہو جاتی اور آپ کا غصہ سخت ہوجاتا جیساکہ آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہو