رمضان مبارک

رمضان المبارك كى خصوصيات كيا ہيں ؟

Published Date: 2011-07-24

الحمد للہ:

ماہ رمضان عربى بارہ مہينوں ميں سے ايك مہينہ ہے، اور دين اسلام ميں يہ مہينہ عظيم الشان قدر و منزلت ركھتا اور باقى سب مہينوں سے اسے بہت سارے خصائص حاصل ہيں جن ميں سے چند ايك خصوصيات ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

1 – اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك كے روزے ركھنا دين اسلام كا چوتھا ركن قرار ديا ہے، جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے:

{ ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا جو لوگوں كے ليے ہدايت كا باعث ہے اور اس ميں راہ ہدايت كى واضح نشانياں ہيں، اور فرقان ہے، اس ليے جو كوئى بھى ماہ رمضان كو پا لے تو وہ اس ماہ كے روزے ركھے }البقرۃ ( 185 ).

اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كےعلاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).

2 – اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں قرآن مجيد نازل كيا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا آيت ميں فرمان بارى تعالى ہے:

{ رمضان المبارك وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن مجيد نازل كيا گيا ہے جو كہ لوگوں كے ليے باعث ہدايت ہے اور اس ميں ہدايت كى نشانياں ہيں اور فرقان ہے }البقرۃ ( 185 ).

اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہيں:

{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے }.

3 – اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ماہ مبارك ميں ليلۃ القدر ركھى ہے جو كہ ايك ہزار مہينوں سے افضل و بہتر ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:

{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو ليلۃ القدر ميں نازل كيا ہے، تجھے كيا علم كہ ليلۃ القدر كيا ہے، ليلۃ القدر ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اس ميں ہر كام كے سرانجام دينے كو اپنے رب كے حكم سے فرشتے اور جبريل اترتے ہيں، يہ رات سراسر سلامتى والى ہے اور فجر كے طلوع ہونے تك رہتى ہے }القدر ( 1- 5 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{ يقينا ہم نے اس قرآن مجيد كو بابركت رات ميں نازل كيا ہے بيشك ہم ڈرانے والے ہيں }الدخان ( 3 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك كو ليلۃ القدر كے ساتھ فضيلت دى ہے، اور ليلۃ القدر كى قدر و منزلت بيان كرنے كے ليے سورۃ القدر نازل ہوئى، اور بہت سارى احاديث بھى اس سلسلہ ميں وارد ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تمہارے پاس وہ بابركت مہينہ آ رہا ہے جس كے روزے اللہ نے تم پر فرض كيے ہيں، اس ميں آسمان كے دروزے كھل جاتے ہيں اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور سركش شيطانوں كو زنجيروں ميں باندھ ديا جاتا ہے، اللہ كے ليے اس ميں ايك رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، جو بھى اس رات كى خير سے محروم ہو گيا تو وہ محروم ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2106 ) مسند احمد حديث نمبر ( 8769 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 999 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ايك دوسرى روايت ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1910 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).

4 – اللہ سبحانہ و تعالى نے رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھنا اور قيام كرنے كو گناہوں كى بخشش كا سبب بنايا ہے؛ جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزے ركھے اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2014 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).

اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے بھى رمضان المبارك كا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2008 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 174 ).

مسلمانوں كا اجماع ہے كہ رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنا سنت ہے، امام نووى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ قيام رمضان سے مراد نماز تراويح ہے يعنى نماز تراويح سے قيام الليل كا مقصد حاصل ہو جاتا ہے.

5 – اس ماہ مبارك ميں اللہ سبحانہ و تعالى جنتوں كے دروازے كھول ديتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديتے ہيں اور شيطانوں كو زنجيروں ميں بند كر ديا جاتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث سے ثابت ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جب رمضان المبارك شروع ہو جاتا ہے تو جنت كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے اور شيطانوں كو ونجيروں ميں جكڑ ديا جاتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1898 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1079 ).

6 – رمضان المبارك كى ہر رات اللہ سبحانہ و تعالى كچھ لوگوں كو جہنم كى آگ سے آزاد كرتے ہيں:

ابو امامہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” ہر افطارى كے وقت اللہ تعالى كے ليے كچھ آزاد ہوتے ہيں "

اسے امام احمد نے مسند احمد ( 5 / 256 ) ميں روايت كيا ہے، امام منذرى رحمہ اللہ نے اس كى سند كو لاباس كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 987 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور بزار نے كشف ( 962 ) ميں ابو سعيد سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” ہر مسلمان كے ليے ہر دن اور رات ميں دعا قبول ہوتى ہے "

7 – جب كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے تو رمضان المبارك كے روزے ركھنا پچھلے سب گناہوں كا كفارہ بن جاتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” پانچوں نمازيں اور جمعہ سے ليكر جمعہ تك اور رمضان سے رمضان تك ان كے مابين گناہوں كا كفارہ ہيں جبكہ كبيرہ گناہوں سے اجتناب كيا جائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 233 ).

8 – رمضان المبارك كے روزے ركھنا دس مہينوں كے برابر ہيں جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث دلالت كرتى ہے:

ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارا سال ہى روزے ركھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1164 ).

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے تو ايك ماہ دس ماہ كے برابر ہے، اور عيد الفطر كے بعد چھ روزے ركھے تو يہ پورے سال كے روزے ہونگے "

مسند احمد حديث نمبر ( 21906 ).

9 – جو شخص رمضان المبارك ميں رات كو امام كے ساتھ قيام مكمل كرے تو اسے سارى رات كے قيام كا ثواب حاصل ہوتا ہے:

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے بھى امام كے ساتھ قيام كيا حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1370 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صلاۃ التراويح صفحہ ( 15 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

10 – اس ماہ مبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك انصارى عورت كو فرمايا:

” تجھے ہمارے ساتھ حج كرنے سے كس چيز سے روكا ؟

اس عورت نے عرض كيا: ہمارے پاس دو ہى اونٹ تھے ايك پر اس كے شوہر نے حج كيا اور دوسرا ہمارے ليے چھوڑ گيا جس پر ہم پانى لاتے تھے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جب رمضان آئے تو تم عمرہ كر لينا، كيونكہ رمضان ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ثواب ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1256 ).

اور صحيح مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

” ميرے ساتھ حج كا ثواب ہے "

ناضح كا معنى وہ اونٹ جس پر پانى لايا جائے.

11 – ماہ رمضان ميں اعتكاف كرنا مسنون ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے مستقل طور پر ہر رمضان ميں اعتكاف كيا تھا جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہونے ہر رمضان كے آخرى عشرہ ميں اعتكاف كيا كرتے تھے، اور پھر ان كى بيويوں نے بھى آپ كے بعد اعتكاف كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1922 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1172 ).

12 – رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كى كثرت سے تلاوت اور دور كرنا مستحب ہے، دور اس طرح ہوگا كہ قرآن مجيد كسى دوسرے شخص كو سنايا جائے، يا پھر كسى دوسرے كا سنا جائے، اس كے مستحب ہونے كى دليل درج ذيل حديث ہے:

” جبريل عليہ السلام رمضان المبارك ميں ہر رات كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مل كر قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2308 ).

قرآن مجيد كى تلاوت كرنا مطلقا مستحب ہے، ليكن رمضان المبارك ميں زيادہ تاكيدى ہے.

13 – رمضان المبارك ميں كسى دوسرے روزے دار كا روزہ افطار كرانا مستحب ہے:

زيد بن خالد جھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس نے بھى روزے دار كا روزہ افطار كرايا اسے روزے دار جتنا ثواب حاصل ہوگا، ليكن روزے دار كے ثواب ميں كوئى كمى نہيں ہو گى "

سنن ترمذي حديث نمبر ( 807 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1746 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 647 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، آپ سوال نمبر ( 12598 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

48: رمضان المبارك آنے كى تيارى كا طريقہ


ہم رمضان المبارك كے ليے كيا تيارى كريں، اور اس ماہ مبارك ميں كونسے اعمال بجا لانا افضل ہيں ؟

Published Date: 2014-06-26

الحمد للہ:

اول:

ہمارے عزيز بھائى آپ نے يہ بہت اچھا سوال كيا ہے، جس ميں آپ ماہ رمضان كے ليے تيارى كرنے كى كيفيت دريافت كرنا چاہتے ہيں، حالانكہ بہت سے افراد اور لوگ تو روزے كى حقيقت ميں بہت انحراف كا شكار ہو چكے ہيں، انہوں ماہ رمضان كو كھانے پينے، اور مٹھائياں و مختلف انواع و اقسام كى ڈش تيار كر كے كھانے كا موسم بنا كر ركھ ديا ہے، اور راتوں كو بيدار ہو كر ڈش اور مختلف فضائى چينل ديكھنے كا سيزن بنا ليا ہے، اور اس كے ليے وہ رمضان المبارك سے بہت عرصہ پہلے ہى تيار كرنے لگ جاتے ہيں، كہ كہيں كچھ كھانے رہ نہ جائيں، يا اس خدشہ سے كہ كہيں ان كا ريٹ ہى نہ بڑھ جائے.

تو يہ لوگ كھانے پينے كى اشياء اور مختلف قسم كے مشروبات كى تيارى ميں لگ جاتے ہيں، اور فضائي چينلوں كى فہرست تلاش كرنے لگتے ہيں تا كہ انہيں علم ہو كہ انہوں نے كونسا چينل ديكھنا ہے، اور كونسا نہيں ديكھنا، تو اس طرح ان لوگوں نے ماہ رمضان كے روزے كى حقيقت ہى مسخ كر ركھ ركھ دى ہے، اور يہ عبادت اور تقوى سے نكل كر اس ماہ مبارك كو اپنے پيٹوں اور اپنى آنكھوں كا موسم بنا ليا ہے.

دوم:

ليكن كچھ دوسرے ايسے بھى ہيں جنہوں نے رمضان البمارك كے روزے كى حقيقت كو جانا اور ادراك كيا اور وہ شعبان ميں ہى رمضان كى تيارى كرنے لگے، بلكہ بعض نے تو اس سے قبل ہى تيارى شروع كردى، ماہ رمضان كى تيارى كے ليے قابل ستائش امور اور طريقے درج ذيل ہيں:

1 – سچى اور پكى توبہ.

ہر وقت توبہ و استغفار كرنا واجب ہے، ليكن اس ليے كہ يہ ماہ مبارك قريب آ رہا ہے، اور تو مسلمان شخص كے ليے زيادہ لائق ہے كہ وہ اپنے ان گناہوں سے جلد از جلد توبہ كر لے جو صرف ا س اور اس كے رب كے مابين ہيں، اور ان گناہوں سے بھى جن كا تعلق حقوق العباد سے ہے؛ تا كہ جب يہ ماہ مبارك شروع ہو تو وہ صحيح اور شرح صدر كے ساتھ اطاعت و فرمانبردارى كے اعمال ميں مشغول ہو جائے، اور ا سكا دل مطمئن ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور اے مومنوں تم سب كے سب اللہ تعالى كى طرف توبہ كرو تا كہ كاميابى حاصل كر سكو ﴾النور ( 31 ).

اغر بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اے لوگو اللہ كى طرف توبہ كرو، ميں تو دن سو بار توبہ كرتا ہوں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2702 ).

2 – دعاء كرنا:

بعض سلف كے متعلق آتا ہے كہ وہ چھ ماہ تك يہ دعا كرتے اے اللہ ہميں رمضان تك پہنچا دے، اور پھر وہ رمضان كے بعد پانچ ماہ تك يہ دعا كرتے رہتے اے اللہ ہمارے رمضان كے روزے قبول و منظور فرما.

چنانچہ مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ اپنے پروردگار سے دعا كرتا رہے كہ اللہ تعالى اسے رمضان آنے تك جسمانى اور دينى طور پر صحيح ركھے، اور يہ دعا كرنى چاہيے كہ اللہ تعالى اپنى اطاعت كے كاموں ميں اس كى معاونت فرمائے، اور اس كے عمل قبول و منظور فرما لے.

3 – اس عظيم ماہ مبارك كے قريب آنے كى خوشى و فرحت ہو.

كيونكہ رمضان المبارك كے مہينہ تك صحيح سلامت پہنچ جانا اللہ تعالى كى جانب سے مسلمان بندے پر بہت عظيم نعمت ہے؛ اس ليے كہ رمضان المبارك خير و بركت كا موسم ہے، جس ميں جنتوں كے دروازے كھول ديے جاتے ہيں، اور جہنم كے دروازے بند كر ديے جاتے ہيں، اور يہ قرآن اور غزوات و معركوں كا مہينہ ہے جس نے ہمارے اور كفر كے درميان فرق كيا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿كہہ ديجئے كہ اللہ كے فضل اور اس كى رحمت سے خوش ہونا چاہيے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس كو وہ جمع كر رہے ہيں ﴾يونس ( 58 )

4 – فرض كردہ روزوں سے برى الذمہ ہونا:

ابو سلمہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے سنا وہ بيان كر رہى تھيں:

” ميرے ذمہ رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء ہوتى تھى، اور ميں شعبان كے علاوہ قضاء نہيں كر سكتى تھى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1849 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1146 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا رمضان ميں روزے ركھنے كى حرص ركھنے سے يہ اخذ ہوتا ہے كہ رمضان كى قضاء كے روزوں ميں دوسرا رمضان شروع ہونے تك تاخير كرنا جائز نہيں "

ديكھيں: فتح البارى ( 1849 ).

5 – علم حاصل كرنا تا كہ روزوں كے احكام كا علم ہو سكے، اور رمضان المبارك كى فضيلت كا پتہ چل سكے.

6 – ايسے اعمال جو رمضان المبارك ميں مسلمان شخص كوعبادت كرنے ميں ركاوٹ يا مشغول نہ ہونے كا باعث بننے والے ہوں انہيں رمضان سے قبل نپٹانے ميں جلدى كرنى چاہيے.

7 – گھر ميں اہل و عيال اور بچوں كے ساتھ بيٹھ كر انہيں روزوں كى حكمت اور ا س كے احكام بتائے، اور چھوٹے بچوں كو روزے ركھنے كى ترغيب دلائے.

8 – كچھ ايسى كتابيں تيار كى جائيں جو گھر ميں پڑھى جائيں، يا پھر مسجد كے امام كو ہديہ كى جائيں تا كہ وہ رمضان المبارك ميں نماز كے بعد لوگوں كو پڑھ كر سنائے.

9 – رمضان المبارك كے روزوں كى تيارى كے ليے ماہ شعبان ميں روزے ركھے جائيں.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم روزے ركھنے لگتے حتى كہ ہم كہتے آپ روزے نہيں چھوڑينگے، اور روزے نہ ركھتے حتى كہ ہم كہنے لگتے اب روزے نہيں ركھينگے، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ماہ رمضان كے علاوہ كسى اور ماہ كے مكمل روزے ركھتے ہوئے نہيں ديكھا، اور ميں نے انہيں شعبان كے علاوہ كسى اور ماہ ميں زيادہ روزے ركھتے ہوئے نہيں ديكھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1868 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1156 ).

اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

” اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ديكھتا ہوں كہ آپ جتنے روزے شعبان ميں ركھتے اتنے كسى اور ماہ ميں نہيں ركھتے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” رجب اور رمضان كے درميان يہ وہ ماہ ہے جس سے لوگ غافل رہتے ہيں، يہ ماہ وہ ہے جس ميں اعمال رب العالمين كے طرف اٹھائے جاتے ہيں، اس ليے ميں پسند كرتا ہوں كہ ميرے عمل اٹھائيں جائيں تو ميں روزہ كى حالت ميں ہوں "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2357 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس حديث ميں ماہ شعبان ميں روزے ركھنے كى حكمت بيان ہوئى ہے كہ: يہ ايسا مہينہ ہے جس ميں اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہيں.

اور بعض علماء نے ايك دوسرى حكمت بھى بيان كيا ہے كہ: ان روزوں كا مقام فرض نماز سے پہلى سنتوں والا ہے، كہ وہ نفس كو فرض كى ادائيگى كے ليے تيار كرتى ہيں، اور اسى طرح رمضان سے قبل شعبان كے روزے بھى.

10 – قرآن مجيد كى تلاوت كرنا:

سلمہ بن كہيل كہتے ہيں: شعبان كو قرآت كے مہينہ كا نام ديا جاتا تھا.

اور جب شعبان كا مہينہ شروع ہوتا تو عمرو بن قيس اپنى دوكان بند كر ديتے، اور قرآن مجيد كى تلاوت كے ليے فارغ ہو جاتے.

اور ابو بكر بلخى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” ماہ رجب كھيتى لگانے كا مہينہ ہے، اور ماہ شعبان كھيتى كو پانى لگانے كا، اور ماہ رمضان كھيتى كاٹنے كا مہينہ ہے.

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

ماہ رجب كى مثال ہوا،اور ماہ شعبان كى بادلوں، اور ماہ رمضان كى مثال بارش جيسى ہے، اور جس نے ماہ رجب ميں نہ تو كھيتى بوئى ہو، اور نہ ہى شعبان ميں كھيتى كو پانى لگايا تو وہ رمضان ميں كيسے كھيتى كاٹنا چاہتا ہے.

اور يہ ديكھيں ماہ رجب گزر چكا ہے، اگر رمضان چاہتے ہو تو آپ شعبان ميں كيا كرتے ہيں، آپ كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور امت كےسلف كا حال تو اس ماہ مبارك ميں يہ تھا، اور آپ كا ان اعمال اور درجات ميں كيا مقام ركھتے ہيں ؟

سوم:

ماہ رمضان ميں مسلمان شخص كو كونسے اعمال كرنے چاہييں، اس كو معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر (26869 ) اور ( 12468 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

رمضان المبارك ميں قيام الليل كى فضيلت:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قيام رمضان كى رغبت دلايا كرتے، ليكن انہيں عزيمت كے ساتھ حكم نہ ديتے، پھر فرماتے:

” جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى بنا پر قيام كيا اس كے پچھلے تمام گناہ معاف بخش ديے جاتے ہيں "

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو معاملہ اسى طرح تھا ( يعنى تراويح باجماعت ادا نہيں كى جاتى تھيں ) پھر ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ابتدائى دور ميں بھى معاملہ اسى طرح رہا "

اور عمرو بن مرۃ الجھنى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس قضاعۃ قبيلے كا ايك آدمى آيا اور عرض كرنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ يہ بتائيں كہ اگر ميں يہ گواہى دوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور آپ اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور پانچ نمازيں ادا كروں، اور ماہ رمضان كے روزے ركھوں، اور رمضان كا قيام كروں، اور زكاۃ ادا كروں تو ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جو شخص بھى اس پر فوت ہوا تو وہ صديقين اور شھداء ميں سے ہے "

ليلۃ القدر اور اس كى تحديد:

2 – رمضان المبارك كى راتوں ميں افضل ترين رات ليلۃ القدر ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جس نے بھى ليلۃ القدر كا ايمان اور اجروثواب كے ساتھ ( اور پھر اسے وہ مل بھى گئى ) ليلۃ القدر كا قيام كيا تو اس كے پچھلے سب گناہ بخش ديے جاتے ہيں "

3 – ليلۃ القدر كے متعلق راجح قول يہى ہے كہ وہ ستائيسويں رات ہے اور اكثر احاديث اسى پر دلالت كرتى ہيں، جن ميں زر بن حبيش كى حديث شامل ہے، وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ سے سنا ـ اور ان سے كہا گيا تھا: عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما يہ كہتے ہيں كہ: جس نے سارا سال قيام كيا تو اسے ليلۃ القدر مل گئى!

تو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى كہنے لگے: اللہ ان پر رحم فرمائے انہوں نے چاہا ہے كہ لوگ بھروسہ ہى نہ كر بيٹھيں، اس ذات كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور عبادت كے لائق نہيں، يقينا يہ رمضان المبارك ميں ہے ـ وہ استثناء كے متعلق حلف اٹھا رہے تھے ـ اور اللہ كى قسم ميں جانتا ہوں كہ وہ كونسى رات ہے ؟ يہ وہ رات ہے جس كا ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قيام كرنے كا حكم ديا، يہ ستائيسويں كى رات ہے، اور اس كى علامت اور نشانى يہ ہے كہ اس دن صبح سورج سفيد ہوتا ہے، اس كى شعاع نہيں ہوتى "

اور انہوں نے يہ روايت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع بيان كى "

اسے مسلم وغيرہ نے بيان كيا ہے.

باجماعت قيام الليل كى مشروعيت:

4 – رمضان المبارك ميں باجماعت قيام كرنا مشروع اور جائز ہے، بلكہ يہ اكيلے ادا كرنے سے افضل ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود باجماعت ادا كيا، اور اس كى فضيلت بھى بيان فرمائى، جيسا كہ ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ميں ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ رمضان المبارك كے روزے ركھے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں سارا ماہ كوئى قيام نہ كروايا، ليكن جب سات راتيں رہ گئيں تو ہميں رات كے آخرى حصہ ميں قيام كروايا حتى كہ رات كا تيسرا حصہ بيت گيا، اور جب چھ راتيں باقى رہ گئيں تو ہميں قيام نہ كروايا، اور جب پانچ تھيں تو ہميں قيام كروايا حتى كہ رات كا آدھا حصہ بيت گيا، تو ميں نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم! اگر آپ ہميں يہ پورى رات قيام كروا ديتے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جب آدمى امام كے ساتھ نماز كرے حتى كہ امام چلا جائے تو اس كے ليے پورى رات كا قيام لكھا جاتا ہے "

اور جب چار راتيں باقى رہيں تو اس رات ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قيام نہ كروايا، اور جب تين رہ گئيں تو انہوں نے اپنى بيويوں اور گھر والوں اور لوگوں كو جمع كيا، اور اتنا قيام كروايا كہ ہميں خدشہ ہوا كہ ہمارى فلاح ہى نہ جائے، راوى كہتے ہيں: ميں نے عرض كيا: فلاح كيا ہے ؟ تو انہوں نے فرمايا: سحرى، پھر اس كے بعد مہينہ كى باقى راتيں ہميں قيان نہ كروايا "

يہ حديث صحيح ہے، اور اصحاب السنن نے اسے روايت كيا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تسلسل كے ساتھ جماعت نہ كروانے كا سبب:

5 – نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مہينہ كى باقى راتيں قيام اس ليے نہ كروايا كہ كہيں رمضان المبارك ميں قيام الليل فرض ہى نہ ہو جائے تو وہ اس كى ادائيگى سے عاجز آ جائيں، جيسا كہ صحيح مسلم اور صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث سے ثابت ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے يہ خدشہ زائل ہو چكا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے شريعت مكمل كر دى ہے، تو اس طرح يہ معلوم يعنى قيام رمضان كى جماعت ترك كرنے كا معلوم زائل ہو چكا ہے، اور وہى سابقہ حكم قيام اليل كى مشرعيت قائم ہے، اور اسى ليے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے زندہ كيا تھا، جيسا كہ بخارى وغيرہ ميں موجود ہے.

عورتوں كے ليے جماعت كى مشروعيت:

6 – قيام اليل ميں عورتوں كا حاضر ہونا مشروع ہے، جيسا كہ ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ كى سابقہ حديث ميں بيان ہوا ہے، بلكہ ان كے ليے خاص امام مقرر كرنا جائز ہے، جو كہ مردوں كے امام كے علاوہ ہو.

حديث ميں ثابت ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے جب لوگوں كو قيام اليل پر جمع كيا تو انہوں نے مردوں كى امامت كے ليے ابى بن كعب كو اور عورتوں كى امامت كے ليے سليمان بن ابى خيثمہ رضى اللہ تعالى عنہ كو مقرر كيا تھا.

عرفجہ الثقفى بيان كرتے ہيں كہ:

” على بن ابى طالب لوگوں كو ماہ رمضان كے قيام كا حكم ديا كرتے تھے، اور مردوں كے ليے عليحدہ اور عورتوں كے ليے عليحدہ امام مقرر كرتے وہ بيان كرتے ہيں: تو ميں عورتوں كا امام تھا "

ميں كہتا ہوں: يہ تو اس وقت ہے جب مسجد بہت بڑى اور وسيع ہو تا كہ ايك امام دوسرے پر تشويش نہ كرے.

قيام الليل ميں ركعات كى تعداد:

7 – اس كى گيارہ ركعات ہيں، اور ہم يہ اختيار كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتے ہوئے ان گيارہ ركعات سے زائد ادا نہ كى جائيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فوت ہونے تك گيارہ ركعات سے زائد ادا نہيں كيں.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے رمضان المبارك ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كے متعلق دريافت كيا گيا تو وہ فرمانے لگيں:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رمضان اور غير رمضان ميں گيارہ ركعات سے زائد ادا نہيں كرتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم چار ركعت ادا فرماتے، اور آپ ان ركعات كےحسن اور لمبا ہونے كے بارہ ميں كچھ نہ پوچھيں، پھر آپ چار ركعت ادا فرماتے تو ان كے حسن اور لمبا ہونے كے متعلق كچھ نہ پوچھ، پھر آپ تين ركعت ادا فرماتے "

اسے بخارى و مسلم وغيرہ نے روايت كيا ہے.

8 – اور اس كے ليے ان ركعات ميں كمى كرنا جائزہے، حتى كہ اگر صرف ايك وتر پر ہى اقتصار كر لے تو بھى جائز ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل اور قول ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل يہ ہے كہ: عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے دريافت كيا گيا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كتنے وتر ادا كيے كرتے تھے ؟

تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا بيان تھا: آپ وتر چار اور تين پڑھا كرتے، اور چھ اورتين، اور سات ركعت سے كم نہيں پڑھتے تھے، اور نہ ہى تيرہ ركعات سے زائد "

اسے ابو داود وغيرہ نے روايت كيا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان يہ ہے:

” وتر حق ہے، تو جو چاہے پانچ وتر ادا كرے، اور جو چاہے تين وتر ادا كرے، اور جو چاہے ايك وتر ادا كرے "

قيام اليل ميں قرآت:

9 – اور رمضان المبارك وغيرہ كے قيام الليل ميں قرآت كےمسئلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كوئى حد نہيں لگائى كہ اس سے نہ تو زائد يا كم قرآت كى جا سكے، بلكہ قرآت لمبى اور چھوٹى ہونے كے اعتبار سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قرآت مختلف ہوا كرتى تھى، بعض اوقات تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم سورۃ المزمل كى مقدار جتنى قرآت كرتے جو كہ بيس آيات ہيں، اور بعض اوقات پچاس آيات كى تلاوت كرتے، اور آپ فرمايا كرتے تھے:

” جو شخص ايك رات ميں سو آيات كے ساتھ قيام كرتا ہے اسے غافلين ميں سے نہيں لكھا جائيگا "

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے: …. دو سو آيات كے ساتھ ت واسے قيام كرنے والے مخلصوں ميں لكھا جائيگا "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك رات ميں سبع الطوال جو كہ سورۃ البقرۃ، آل عمران، اور النساء، اور المآئدۃ، اور الانعام، اور الاعراف اور التوبۃ كى قرآت كر كے قيام كيا، حالانكہ آپ بيمار بھى تھے "

اور حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے نماز ادا كرنے والے قصہ ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك ہى ركعت ميں البقرۃ، پھر النساء، اور پھر آل عمران، پڑھى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بڑے آرام اور ٹھر ٹھر كر پڑھا كرتے تھے.

اور صحيح ترين سند سے ثابت ہے كہ جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كو لوگوں كا امام بنايا تو انہيں رمضان ميں لوگوں كو گيارہ ركعات پڑھانے كا حكم ديا، ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ سو سو آيات والى سورتيں پڑھا كرتے تھے، حتى كہ ان كے پيچھے نماز پڑھنے والے قيام لمبا ہونے كى بنا پر لاٹھيوں پر سہارا ليتے، اور وہ قيام سے تقريبا فجر كے قريب جا كر فارغ ہوتے.

اور يہ بھى صحيح ثابت ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے رمضان المبارك ميں قرآء حضرات كو بلايا، اور ان ميں سے سب سے تيز پڑھنے والے كو حكم ديا كہ وہ تيس آيات پڑھے، اور متوسط پڑھنے والے كو پچيس آيات پڑھنے كا حكم ديا، اور آہستہ پڑھنے والے كو بيس آيات پڑھنے كا كہا.

اس بنا پر اكيلا قيام كرنے والا شخص جتنا چاہے لمبا قيام كر سكتا ہے اور اسى طرح جو اس كے ساتھ موافق ہو وہ بھى لمبا قيام كر لے، اور قيام جتنا لمبا ہو گا اتنا ہى افضل اور بہتر ہے، ليكن وہ قيام لمبا كرنے ميں مبالغہ نہ كرے كہ سارى رات ہى بيدار رہے، بلكہ بعض اوقات ايسا كر سكتا ہے، تا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى ہو سكے جن كا فرمان يہ ہے:

” اور سب سے بہترين طريقہ نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے "

ليكن جب بطور امام قيام كروائے تو اسے اتنا لمبا كرنا چاہيے جو مقتديوں كے ليے مشقت كا باعث نہ ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جب تم ميں كوئى لوگوں كو قيام كروائے تو وہ نماز تخفيف كے ساتھ ادا كرے ( يعنى ہلكى ادا كرے ) كيونكہ ان ميں بچے بھى ہيں، اور بوڑھے بھى، اور ان ميں كمزور بھى، اور بيمار و مريض، اور ضرورتمند بھى، اور جب وہ اكيلا قيام كرے تو جتنى چاہے نماز لمبى كرے "

قيام كا وقت:

10 – قيام الليل كا وقت نماز عشاء كے بعد سے ليكر فجر تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” يقينا اللہ تعالى نےتمہارے ليے ايك نماز زائد كى ہے اور وہ وتر ہيں تو تم اسے نماز عشاء سے نماز فجر كے درميان ادا كيا كرو "

11 – اور پھر رات كے آخرى حصہ ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، جس كے ليے اس ميں آسانى ہو تو وہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكےگا تو وہ رات كے شروع ميں ہى وتر ادا كر لے، اور جو رات كے آخر ميں بيدار ہونے كى اميد ركھتا ہو وہ رات كے آخر ميں وتر ادا كرے، كيونكہ رات كے آخر ميں ادا كردہ نماز ميں فرشتے حاضر ہوتے ہيں، اور يہ افضل ہے "

12 – اور جب رات كى ابتدا ميں باجماعت قيام اور رات كے آخر ميں اكيلے قيام كرنے كا معاملہ ہو تو پھر جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنا افضل ہے، كيونكہ اس سے اس كے ليے سارى رات كے قيام كا ثواب لكھا جائيگا.

عمر رضى اللہ تعالى عنہ كےدور ميں صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كا عمل بھى اسى پر تھا، چنانچہ عبد الرحمن بن عبيد القارى كہتے ہيں:

” رمضان المبارك كى ايك رات ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ مسجد كى طرف گيا تو لوگ عليحدہ عليحدہ نماز ادا كر رہے تھے، كہيں اكيلا شخص نماز ادا كر رہا تھا، تو اور كسى شخص كے پيچھے كچھ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

اللہ كى قسم ميرا خيال اور رائے ہے كہ اگر ميں انہيں ايك قارى كے پيچھے جمع كر دوں تو زيادہ بہتر ہے، پھر انہوں نے عزم كر ليا، اور سب لوگوں كو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے نماز ادا كرنے كا كہا.

عبد الرحمن كہتے ہيں: پھر ايك اور رات ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ نكلا تو لوگ اپنے امام كے پيچھے نماز ادا كر رہے تھے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

يہ طريقہ بہت اچھا ہے، اور جو لوگ سو رہے ہيں وہ قيام كرنےوالوں سے افضل اور بہتر ہيں ـ ا نكى مراد رات كا آخرى حصہ تھى ـ اور ان دنوں لوگ رات كے شروع ميں قيام كرتے تھے "

اور زيد بن وھب كہتے ہيں:

” رمضان المبارك ميں ہميں عبد اللہ نماز پڑھاتے تو وہ رات كو فارغ ہوتے "

13 – اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين وتر اكھٹے ادا كرنے سے منع كيا تو فرمايا:

” اور مغرب كى نماز سے مشابہت مت كرو "

تو پھر تي وتر اكھٹے ادا كرنے والے كو چاہيے كہ وہ اس مشابہت سے ضرور اجتناب كرے، اور يہ دو طرح سے ہو سكتا ہے:

پہلا طريقہ:

دو ادا كر كے سلام پھير لے اور پھر ايك وتر ادا كرے، اور يہ طريقہ زيادہ قوى اور افضل ہے.

دوسرا طريقہ:

دو ركعت كے بعد تشہد نہ بيٹھے.

واللہ تعالى اعلم.

تين وتروں ميں قرآت كرنا:

14 – تين وتروں كى قرآت ميں سنت يہ ہے كہ پہلى ركعت ميں { سبح اسم ربك الاعلى } اور دوسرى ركعت ميں{ قل يا ايھا الكافرون } اور تيسرى ركعت ميں { قل ھو اللہ احد } اور بعض اوقات اس كے ساتھ { قل اعوذ برب الفلق } اور { قل اعوذ برب الناس } كا اضافہ كر ليا كرے.

اور يہ بھى نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ نے ايك بار وتر ميں سورۃ النساء كى ايك سو آيات كى تلاوت فرمائى.

دعاء قنوت:

15 – اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دعا كے ساتھ قنوت كيا كرتے تھے جو انہوں نے اپنے نواسے حسن بن على رضى اللہ تعالى عنہما كو سكھائى تھى، اور وہ يہ ہے:

” اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت ، وبارك لي فيما أعطيت ، وقني شر ما قضيت ، فإنك تقضي ولا يقضى عليك ، وإنه لا يذل من واليت ، ولا يعز من عاديت ، تباركت ربنا وتعاليت ، لا منجا منك إلا إليك "

اے اللہ مجھے ان لوگوں ميں ہدايت دے جنہيں تو نے ہدايت دى، اور مجھے ان ميں عافيت دے جنہيں تو نے عافيت سےنوزا، اور ميرا ولى بن جن كا تو ولى بنا، اور جو تو نے مجھے عطا كيا ہے اس ميں بركت عطا فرما، اور مجھے اپنى برى تقدير سے بچا كر ركھ، كيونكہ تو ہى فيصلہ كرنے والا ہے، اور تيرے خلاف كوئى فيصلہ نہيں كر سكتا، يقينا جس كا تو دوست بن جائے وہ ذليل نہيں ہو سكتا اور جس كا تو دشمن بن جائے وہ كبھى عزت حاصل نہيں كر سكتا، ہمارے رب تو بابركت ہے اور بلند و بالا ہے، تيرے علاوہ كہيں اور ٹھكانہ نہيں "

اور بعض اوقات اس دعا كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دورد بھى پڑھے، ( اور مشروع اور صحيح دعاء ميں سے كوئى اور دعا كا اضافہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں ).

16 – اور ركوع كے بعد قنوت كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں كفار پر لعنت كرنے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود اور نصف رمضان كے بعد عام مسلمانوں كے ليے دعا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں اماموں سے ا سكا ثبوت ملتا ہے عبد الرحمن القارى كى مندرجہ بالا حديث كے آخر ميں آيا ہے كہ وہ يہ دعا كرتے تھے:

” اللهم قاتل الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ، ويكذبون رسلك ، ولا يؤمنون بوعدك ، وخالف بين كلمتهم ، وألق في قلوبهم الرعب ، وألق عليهم رجزك وعذابك ، إله الحق "

اے اللہ ان كافروں كو تباہ و برباد كر دے جو تيرى راہ سے روكتے ہيں اور تيرے رسولوں كو جھٹلاتے ہيں، اور تيرے و عدے پر ايمان نہيں لاتے، اور ان كے درميان اختلاف پيدا كر دے، اور ان كے دلوں ميں رعب ڈال دے، اور ان پر اپنا عذاب اور سزا بھيج دے، اے الہ الحق "

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے، اور اس كے بعد حسب استطاعت عام مسلمانوں كى خير و بھلائى كے ليے دعا مانگے، اور پھر مومنوں كى بخشش كے ليے دعا كرے.

راوى كہتے ہيں:

اور جب كفار پر لعنت، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام اور مومنوں اور مومنات كے ليے استغفار اور دعائے خير سے فارغ ہوتے تو يہ كلمات كہتے:

” اللهم إياك نعبد ، ولك نصلي ونسجد ، وإليك نسعى ونحفد ، ونرجو رحمتك ربنا ، ونخاف عذابك الجد ، إن عذابك لمن عاديت ملحق "

اے اللہ ہم خاص تيرى ہى عبادت كرتے ہيں، اور تيرے ليے ہى نما زادا كرتے اور تجھے ہى سجدہ كرتے ہيں، اور تيرى طرف ہى كوشش كرتے ہيں اور جلدى كرتے ہيں، اور اے ہمارے رب ہم تيرى رحمت كے اميدوار ہيں اور ہم تيرے يقينى عذاب سے ڈرتے ہيں، بلا شبہ جو بھى تيرے ساتھ دشمنى ركھےگا تيرا عذاب اسے پہنچنے والا ہے "

پھر تكبير كہہ كر سجدہ ميں چلے جاتے.

وتر كے آخر ميں كيا كہا جائے:

17 – سنت يہ ہے كہ وتر كے آخر ميں ( سلام سے پہلے يا سلام پھير كر ) درج ذيل كلمات كہے:

” اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك ، وبمعافاتك من عقوبتك ، وأعوذ بك منك ، لا أحصي ثناء عليك ، أنت كما اثنيت على نفسك "

اے اللہ ميں تيرى ناراضگى سے تيرى رضا كى پناہ ميں آتا ہے، اور تيرے عقاب و سزا سے تيرى عافيت كى طرف آتا ہوں، اور تجھ سے پناہ طلب كرتا ہوں، ميں تيرى ثناء كو شمار ہى نہيں كر سكتا، جس طرح تو نے اپنى ثناء خود كى ہے "

18 – اور جب وتر سے سلام پھيرے تو يہ كلمات تين بار كہے:

” سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس ، سبحان الملك القدوس "

اور تيسرى بار اسے بلند آواز سے كہے.

وتروں كے بعد دو ركعات:

19 – اور اس كے ليے جائز ہے كہ وہ ( وتروں كے بعد اگر چاہے تو ) دو ركعات ادا كر لے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ دو ركعات فعلا ثابت ہيں، بلكہ ….. رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” يقينا يہ سفر جھد و مشقت ہے، اور اگر تم ميں سے كوئى وتر ادا كر چكے تو وہ دو ركعات ادا كرے، اگر وہ بيدار ہو ا تو ٹھيك وگرنہ يہ دو ركعت اس كے ليے ہونگى ".

20 – سنت يہ ہے كہ وہ ان دو ركعات ميں {اذا زلزلت الارض } اور { قل يا ايھاالكفافرون } كى تلاوت كرے.

واللہ اعلم .