انفاق فی سبیل الله۔ اللّه کے راستے میں خرچ کرنا 

نیکوکاروں کے لیےنماز قائم کرنا اور اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ کرنا لازم وملزوم ہیں

الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾
الف لام میم یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے اُن پرہیز گار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 03-01

وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ﴿١٣٣﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾
دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔

قرآن، سورت آلِ عمران ، آیت نمبر 134-133

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴿٤﴾
سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔

قرآن، سورت الانفال ، آیت نمبر 04-02

وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴿٢٢﴾
اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں آخرت کا گھر انہی لوگوں کے لیے ہے۔

قرآن، سورت الرعد ، آیت نمبر 22

قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ ﴿٣١﴾
اے نبیؐ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے کھلے اور چھپے (راہ خیر میں) خرچ کریں قبل اِس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی۔

قرآن، سورت ابراہیم ، آیت نمبر 31

وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٥﴾
اور اے نبیؐ، بشارت دے دے عاجزانہ رَوش اختیار کرنے والوں کو جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

قرآن، سورت الحج ، آیت نمبر 35-34

تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴿١٦﴾
اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُنہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

قرآن، سورت السجدۃ ، آیت نمبر 16

إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ ﴿٢٩﴾
جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے اُنہیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا۔

قرآن، سورت فاطر ، آیت نمبر 29

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٨﴾
جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

قرآن، سورت الشورٰی ، آیت نمبر 38

لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ ﴿١٥﴾ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿١٦﴾الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ ﴿١٧﴾
جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، اُن کے لیے ان کے رب کے پا س باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہےیہ وہ لوگ ہیں، جو کہتے ہیں کہ "مالک! ہم ایمان لائے، ہماری خطاؤں سے در گزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچا لے” یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں، راستباز ہیں، فرمانبردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں ۔

قرآن، سورت آلِ عمران ، آیت نمبر 17-15

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٣٥﴾
جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔

قرآن، سورت الاحزاب ، آیت نمبر 35

اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ نہ کر کے اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالو

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٩٥﴾
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 195

والدین ، رشتہ داروں وغیرہ پر مال خرچ کرنا چاہیے

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴿٢١٥﴾
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 215

سارا نہیں بلکہ ضرورت سے زائد مال خرچ کرنے کا حکم ہے

وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ ﴿٢١٩﴾ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ
پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 220-219

اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ کرنے کا اجر بے حساب ہے

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١﴾
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 261

اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ کرنے والے احسان نہیں جتاتے 

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٢٦٢﴾ ۞
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر262

احسان جتائے ہوئے صدقے سے ایک اچھی بات اور معاف کرنا بہتر ہے

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ ﴿٢٦٣﴾
ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اُس کی صفت ہے۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 263

ریا کاری کی نیت سے مال خرچ کرنے والے اللہ تعالٰی اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗوَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴿٢٦٤﴾
اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایما ن رکھتا ہے، نہ آخرت پر اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 264

وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا ﴿٣٨﴾وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا ﴿٣٩﴾
اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کیلیے خرچ کرتے ہیں اور در حقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی آخر اِن لوگوں پر کیا آفت آ جاتی اگر یہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے اور جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے اگر یہ ایسا کرتے تو اللہ سے ان کی نیکی کا حال چھپا نہ رہ جاتا ۔

قرآن، سورت النساء ، آیت نمبر 39-38

صرف اللہ تعالٰی کی رضا کےلیے مال خرچ کرنے کی مثال دگنا پھل لانے والے باغ کی طرح ہے

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿٢٦٥﴾
بخلا ف اِس کے جو لو گ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو اگر زور کی بار ش ہو جائے تو دو گنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اُس کے لیے کافی ہو جائے تم جو کچھ کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 265

اللہ تعالٰی کی راہ میں صرف پاکیزہ مال خرچ کرو

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ﴿٢٦٧﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 267

ریا کاری کے بغیراللہ تعالٰی کی راہ میں علانیہ اور خفیہ دونوں طرح مال خرچ کرنا صحیح ہے

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ﴿٢٧٠﴾ إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚوَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴿٢٧١﴾
تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اُس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں اگر اپنے صدقات علانیہ دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے تمہاری بہت سی برائیاں اِس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہوئے اللہ کو بہر حال اُس کی خبر ہے ۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 271-270

مال خرچ کرنے کا مقصد فقط اللہ تعالٰی کی رضا حاصل کرنا ہو

وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٢﴾
اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 272

صدقات وخیرات کے مستحق خودارتنگ دست ہیں نہ کہ پیچھے پڑ کر مانگنے والے

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴿٢٧٣﴾
خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 273

اللہ تعالٰی کی راہ میں دن رات مال خرچ کرنے والےخوف وحزن سے آزاد ہونگے

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٢٧٤﴾
جو لو گ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 274

اللہ تعالٰی سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ﴿٢٧٦﴾
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔

قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 276

نیکی کو پانے کےلیے محبوب مال میں سے خرچ کرنا لازم ہے

لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚوَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ﴿٩٢﴾
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا۔

قرآن، سورت آل،عمران، آیت نمبر 92

ریاکاری کی نیت سے خرچ کیے ہوئے مال کی کوئی قدروقیمت نہیں

مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِي هَٰذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿١١٧﴾
جو کچھ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی میں خرچ کر رہے ہیں اُس کی مثال اُس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو اور وہ اُن لوگوں کی کھیتی پر چلے جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اسے برباد کر کے رکھ دے اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا در حقیقت یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔

قرآن، سورت آل،عمران، آیت نمبر 117

اللہ تعالٰی کی راہ سے روکنے کےلیے مال خرچ کرنا کفار کی روش ہے

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ ﴿٣٦﴾
جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے مگر آخر کار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے۔

قرآن، سورت الانفال ، آیت نمبر 36

اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا

وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴿٦٠﴾
اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

قرآن، سورت الانفال ، آیت نمبر 60

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿٣٩﴾
اے نبیؐ، ان سے کہو، "میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اُس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے، وہ سب رازقوں سے بہتر رازق ہے۔

قرآن، سورت سباء ، آیت نمبر 39

اللہ تعالٰی کی راہ میں سونا اور چاندی ( مال) خرچ نہ کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب ہے

وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ ﴿٣٥﴾
دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔

قرآن، سورت التوبہ ، آیت نمبر 35-34

اللہ تعالٰی فاسق لوگوں کامال قبول نہیں کرتا 

قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ ۖإِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴿٥٣﴾
ان سے کہو ”تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت، بہر حال وہ قبول نہ کیے جائیں گے کیونکہ تم فاسق لوگ ہو“۔

قرآن، سورت التوبہ ، آیت نمبر 53

کفر کرنے ، نماز سے سستی برتنے اوربے دلی سے خرچ کرنے والوں کا بھی مال قبول نہیں کیا جاتا 

وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا يُنفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ﴿٥٤﴾
ان کے دیے ہوئے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے، نماز کے لیے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے آتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں ۔

قرآن، سورت التوبہ ، آیت نمبر 54

جو لوگ اللہ تعالٰی کی راہ میں مال تاوان سمجھ کر خرچ کرتے ہیں ان پر مصیبت واقع ہو کر رہے گی

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٩٨﴾
ان بدویوں میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کر رہے ہیں (کہ تم کسی چکر میں پھنسو تو وہ اپنی گردن سے اس نظام کی اطاعت کا قلادہ اتار پھینکیں جس میں تم نے انہیں کس دیا ہے) حالانکہ بدی کا چکر خود انہی پر مسلط ہے اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

قرآن، سورت التوبہ ، آیت نمبر 98

اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالٰی کا قرب حاصل ہوگا

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚسَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٩٩﴾
اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کریگا، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

الحدید ۱۱)
مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں، اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیاہے،ان کو یقیناکئی گنابڑھاکر دیا جائے گا، اور ان کے لئے بہترین اجر ہے۔  (سورۂ الحدید۱۸)
اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنابڑھاکر دے گا، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بردبار ہے۔ (سورۂ التغابن ۱۷)
اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو، جو کچھ نیک اعمال تم اپنے لئے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤگے، وہی زیادہ بہتر ہے، اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔  (سورۂ المزمل ۲۰)
قرض حسن سے کیا مراد ہے ؟
قرآن کریم میں استعمال ہوئی اس اصطلاح (قرض حسن) سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا مراد ہے غرضیکہ انسانیت کے کام آنے والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں، جیسا کہ مفسرین قرآن نے اپنی تفسیروں میں تحریر فرمایا ہے۔ اسی طرح قرض حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
اللّہ نے بندوں کی ضرورت میں خرچ کرنے کو قرض حسن سے کیوں تعبیر کیا ؟
اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ، وہ نہ صرف مال ودولت اور ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے ، بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے،ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے رہیں، تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں ، یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں، غریب محتاجوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی وعصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ، دونوں جہاں میں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اپنے مہمان خانہ جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
حضرت ابو الدحداح ؓ کا واقعہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب قرض حسن سے متعلق آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح ؓ انصاری حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: ہاں۔ وہ عرض کرنے لگے: اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجئے (تاکہ میں آپ اکے دست مبارک پر ایک عہد کروں)۔ حضور اکرم ا نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ حضرت ابو الدحداح ؓ انصاری نے معاہدہ کے طور پر حضور اکرم ا کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ ان کے باغ میں کھجور کے ۶۰۰درخت تھے، اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے۔ یہاں سے اٹھ کر اپنے باغ گئے اور اپنی بیوی ام الدحداح ؓ سے آواز دے کر کہاکہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دیدیا۔ (تفسیر ابن کثیر)

یہ ہے وہ قیمتی سودا جو حضرت ابوالدحداح ؓ نے کیا، ان کے پاس دو باغ تھے، ان میں سے ایک باغ بہت قیمتی تھاجس میں کھجور کے۶۰۰ درخت تھے، جس کو وہ خود بھی بہت پسند کرتے تھے اور اسی میں وہ اور ان کے بچے رہتے تھے، لیکن مذکورہ آیت کے نزول کے بعد یہ قیمتی باغ ضرورت مند لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیا۔ ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایاہے: اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے خود ان کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (سورہ الحشر ۹)۔
قرآن میں قرض حسن کے مختلف بدلے :
دنیا میں بہترین بدلہ۔
دنیا وآخرت میں بہترین بدلہ۔
آخرت میں عظیم بدلہ۔
گناہوں کی معافی۔
جنت میں داخلہ۔

زیدبن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ (تعالیٰ) کے راستے میں جہاد کرنے والے کے لئے سازوسامان مہیا کیا، اس نے بھی جہاد کیا اور جس نے خیر خواہی کے ساتھ اللہ (تعالیٰ) کے راستے میں جہاد کرنے والے کے گھر کی دیکھ بھال کی، اس نے بھی جہاد کیا۔

(صحیح البخاری ،ص:۳۹۹،ج:۱،رقم الحدیث: ۲۸۴۳)

حضرات اہل علم نے فرمایا ہے کہ جہاد میں مال خرچ نہ کرنا مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔

کیونکہ جب اَہلِ مال اپنے اموال کو مجاہدین پر خرچ کرکے انہیں مضبوط نہیں کریں گے اور اپنے اموال کے ذریعے سے مجاہدین کے لئے آلات حرب نہیں خریدیں گے تو مجاہدین کمزور ہوجائیں گے اور ان کے دشمن مضبوط ہوجائیں گے اور ممکن ہے کہ دشمن غالب آجائیں، اس وقت وہ مسلمانوں کی تمام املاک اور اموال کو بھی چھین لیں گے اور مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنائیں گے اور ان پر کافرانہ قوانین کو مسلط کریں گے ،تب مجاہدین سے مال روکنے والوں کو سوائے ندامت اور پشیمانی کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔

مال کی محبت دل سے نکلے گی تو جہاد میں جانا آسان ہوگا اور مال جیب سے نکلے گا تو جہاد میں لڑنا آسان ہوگا، اس کے برعکس اگر دل میں مال کی محبت بھری رہی تو بزدلی پیدا ہوگی، تب دشمن غالب آجائیں گے اور اگر مسلمان مال جمع کرتے رہے اور جہاد میں لڑنے والے اللہ تعالیٰ کے شیر اسباب کو ترستے رہے تو پوری امت مسلمہ کو نقصان پہنچے گا۔ (فتح الجواد۱/۴۹)

حضرت ابوبکرؓ کا انفاق

حضرت اسماء رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں جب حضور اقدسﷺ (مکہ سے ہجرت کے لئے) روانہ ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنے ساتھ اپنا سارا مال پانچ ہزار یا چھ ہزار درہم جتنا بھی تھا، سارا لے لیا اور لے کر حضورﷺ کے ساتھ چلے گئے، پھر ہمارے دادا حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ ہمارے گھر آئے ان کی بینائی جا چکی تھی۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرے خیال میں تو ابوبکرؓ تم لوگوں کو جانے کے صدمہ کے ساتھ مال کا صدمہ بھی پہنچا گئے ہیں، یعنی خود تو وہ گئے ہی ہیں میرا خیال یہ ہے کہ وہ مال بھی سارا لے گئے ہیں اور تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑا ہے۔ میں نے کہا: دادا جان! ہرگز نہیں۔ وہ تو ہمارے لئے بہت کچھ چھوڑ کر گئے ہیں اور میں نے (چھوٹی چھوٹی) پتھریاں لے کر گھر کے اس طاق میں رکھ دیں جس میں حضرت ابوبکرؓ اپنا مال رکھا کرتے تھے(اس زمانے میں درہم و دینار چھوٹی پتھریوں کی طرح کے ہوتے تھے لہٰذا درہم و دینار کے سائز کی پتھریاں رکھی ہوں گی) پھر میں نے ان پتھریوں پر ایک کپڑا ڈال دیا پھر میں نے اپنے دادا جان کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کہا اے دادا جان! اپنا ہاتھ اس مال پر رکھیں، چنانچہ انہوں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا(وہ یہ سمجھے کہ یہ درہم و دینار ہی ہیں) تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں اگر وہ تمہارے لئے اتنا مال چھوڑ گئے ہیں تو انہوں نے اچھا کیا۔ اس سے تمہارا گزارہ ہوجائے گا۔ حضرت اسماء کہتی ہیں اللہ کی قسم! انہوں نے ہمارے لئے کچھ نہیں چھوڑا تھا لیکن میں نے یہ کام بڑے میاں (دادا جان) کی تسلی کے لئے کیا تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے غزوۂ تبوک میں اپنا سارا مال جوکہ چار ہزار درہم تھا خرچ کیا تھا۔ 

حضرت عثمانؓ کا انفاق

 ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن عفانؓ نے غزوہ تبوک کے موقع پر تنگی کے وقت میں ایک ہزار دینار کے ذریعے لشکر اسلام کی مددکی ، انہوں نے یہ دینار حضور اکرم ﷺکی گود مبارک میں ڈال دیئے، آپﷺ انہیں اپنے ہاتھوں سے الٹتے پلٹتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے: آج کے بعد عثمان کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔آپ ﷺ بار بار ان الفاظ کو دھراتے تھے ۔ (مسند احمد ترمذی)

ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا : اے میرے پروردگار! آپ عثمان سے راضی ہو جایئے، بے شک میں ان سے راضی ہوں ۔ (سیرۃ ابن ہشام)

حضرت عبد الرحمن بن خباب سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ نے بیان فرمایا اور جیش عسرہ (غزوۂ تبوک میں جانے والا لشکر) پر خرچ کرنے کی ترغیب دی تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا کجاوے اور پالان سمیت سو اونٹ میرے ذمہ ہیں یعنی میں دوں گا۔ پھر حضورﷺ منبر سے ایک سیڑھی نیچے تشریف لائے اور پھر(خرچ کرنے کی) ترغیب دی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر کہا کجاوے اور پالان سمیت اور سو اونٹ میرے ذمہ ہیں۔ حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں میں نے حضورﷺ کو دیکھا کہ (حضرت عثمانؓ کے اتنا زیادہ خرچ کرنے پر بہت خوش ہیں اور خوشی کی وجہ سے) ہاتھ کو ایسے ہلا رہے ہیں جیسے تعجب و حیرانی میں انسان ہلایا کرتا ہے۔ اس موقع پر عبد الصمد راوی نے سمجھانے کے لئے اپنا ہاتھ باہر نکال کر ہلا کر دکھایا اور حضورﷺ فرما رہے تھے اگر اتنا زیادہ خرچ کرنے کے بعد حضرت عثمانؓ کوئی بھی (نفل) عمل نہ کرے تو ان کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ بیہقی کی روایت میں یہ ہے کہ حضورﷺ نے تین مرتبہ ترغیب دی اور حضرت عثمانؓ نے کجاوے اور پالان سمیت تین سو اونٹ اپنے ذمہ لئے، حضرت عبد الرحمن کہتے ہیں میں اس وقت موجود تھا جب حضورﷺ منبر پر یہ فرما رہے تھے اتنا خرچ کرنے کے بعد یا فرمایا آج کے بعد عثمانؓ کا کسی گناہ سے نقصان نہیں ہوگا۔ (مسند احمد)

ایک کے بدلے سات سو

حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نکیل پڑی ہوئی اونٹنی لے کر آیا اور حضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ (یارسول اللہ!) یہ اونٹنی اللہ کے راستہ میں (دیتا ہوں) حضورﷺ نے فرمایا تمہیں قیامت کے دن اس کے بدلے میں ایسی سات سو اونٹنیاں ملیں گی کہ ان سب کی نکیل پڑی ہوئی ہوگی۔ (مسلم)

حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا انفاق

حضرت ابوسلمہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عہنما فرماتے ہیں حضورﷺ نے اعلان فرمایا صدقہ کرو کیونکہ میں ایک جماعت بھیجنا چاہتا ہوں، اس پر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس چار ہزار درہم ہیں ان میں سے دو ہزار تو میں اپنے رب کو ادھار دے رہا ہوں (اللہ کو ادھار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اب میں یہ مال ضرورت مندوں پر خرچ کردیتا ہوں اور آخرت میں اس کا بدلہ لوں گا) اور دو ہزار میں اپنے اہل و عیال کو دے رہا ہوں۔ حضورﷺ نے (خوش ہوکر) ان کو دعا دی، اللہ تعالیٰ اس میں بھی برکت دے جو تم دے رہے ہو اور اس میں بھی برکت دے جو (گھر والوں کے لئے) رکھ رہے ہو۔

حضرت سعید بن عامرؓ کا انفاق

حضرت عبد الرحمن بن سابط جمحی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ حضرت سعید بن عامرؓ کو تنخواہ ملتی تو گھر والوں کے گزارے کا سامان خرید لیتے اور باقی کو صدقہ کردیتے تو ان کی بیوی ان سے کہتی آپ کی باقی تنخواہ کہاں ہے؟ وہ کہتے میں نے وہ قرض دے دی ہے (ان کا یہ طرز عمل دیکھ کر) کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور ان سے انہوں نے کہا آپ کے گھر والوں کا آپ پر حق ہے، آپ کے سسرال والوں کا آپ پر حق ہے تو حضرت سعید نے کہا میں نے ان کے حقوق کی ادائیگی میں کبھی کسی کو ان پر ترجیح نہیں دی ہے۔ میں موٹی آنکھوں والی حوریں حاصل کرنا چاہتا ہوں تو میں کسی بھی انسان کو اس طرح خوش کرنا نہیں چاہتا کہ اس سے حوروں کے لینے میں کمی آئے یا وہ نہ مل سکیں کیونکہ اگر جنت کی ایک بھی حور جھانک لے تو اس کی وجہ سے ساری زمین ایسے چمکنے لگے گی جیسے سورج چمکتا ہے، میں جنت میں سب سے پہلے جانے والی جماعت سے پیچھے رہ جانے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوں کیونکہ حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو حساب کے لئے جمع فرمائیں گے تو فقراء مؤمنین جنت کی طرف ایسے تیزی سے جائیں گے جیسے کبوتر اپنے گھونسلے کی طرف تیزی سے پر پھیلا کر اترتا ہے۔ فرشتے ان سے کہیں گے، ٹھہرو حساب دے کر جائو، وہ کہیں گے ہمارے پاس حساب کے لئے کچھ ہے ہی نہیں، ہمیں دیا ہی کیا تھا جس کا ہم حساب دیں۔ اس پر ان کا رب فرمائے گا میرے بندے ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ پھر ان کے لئے جنت کا دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ لوگوں سے ستر سال پہلے جنت میں چلے جائیں گے۔

حضرت سعیدؓ نے اپنی بیوی سے کہا کیا تم اس سے بہتر بات چاہتی ہو کہ ہم یہ دینار اسے دے دیتے ہیں جو ہمیں سخت ضرورت کے وقت دے دے، ان کی بیوی نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گھر والوں میں سے ایک آدمی کو بلایا جس پر انہیں اعتماد تھا اور ان دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں ڈال کر اس سے کہا جا کر یہ دینار فلاں خاندان کی بیوائوں، فلاں خاندان کی یتیموں، فلاں خاندان کے مسکینوں اور فلاں خاندان کے مصیبت زدہ لوگوں کو دے آئو۔ تھوڑے سے دینار بچ گئے تو اپنی بیوی سے کہا لو یہ خرچ کرلو۔ پھر اپنے گورنری کے کام میں مشغول ہوگئے۔ چند دن بعد ان کی بیوی نے کہا کیا آپ ہمارے لئے کوئی خادم نہیں خرید لیتے؟ اس مال کا کیا ہوا؟ حضرت سعیدؓ نے کہا وہ مال تمہیں سخت ضرورت کے وقت ملے گا۔

حضورﷺ مسکرا اٹھے

حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضورﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے، لوگوں کو (سخت بھوک کی) مشقت اٹھانی پڑی (جس کی وجہ سے) میں نے مسلمانوں کے چہروں پر غم اور پریشانی کے آثار اور منافقوں کے چہروں پر خوشی کے آثار دیکھے۔ جب حضورﷺ نے بھی یہ بات دیکھی تو آپﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم! سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے لئے رزق بھیج دیں گے۔ جب حضرت عثمانؓ نے یہ سنا تو انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ اور رسولﷺ کی بات ضرور پوری ہوگی۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے چودہ اونٹنیاں کھانے کے سامان سے لدی ہوئی خریدیں اور ان میں سے نو اونٹنیاں حضورﷺ کی خدمت میں بھیج دیں۔ جب حضورﷺ نے یہ اونٹنیاں دیکھیں تو فرمایا یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا یہ حضرت عثمانؓ نے آپ کو ہدیہ میں بھیجی ہیں، اس پر حضورﷺ اتنے زیادہ خوش ہوئے کہ خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر محسوس ہونے لگے اور منافقوں کے چہروں پر غم اور پریشانی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ میں نے حضورﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور حضرت عثمانؓ کے لئے ایسی زبردست دعا کی کہ میں نے حضورﷺ کو نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کے لئے ایسی دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ! عثمانؓ کو (یہ اور یہ) عطا فرما اور عثمانؓ کے ساتھ (ایسا اور ایسا) معاملہ فرما۔ (طبرانی)

حضرات شیخینؓ کا صدقہ میں مقابلہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدسﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا اتفاقاً اس زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجود تھا میں نے کہا آج میرے پاس اتفاق سے مال موجود ہے اگر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جائوں گا۔ یہ سوچ کر خوشی خوشی میں گھر گیا اور جو کچھ بھی گھر میں رکھا تھا اس میں سے آدھا لے آیا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا۔ میں نے عرض کیا کہ کچھ چھوڑ آیا ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا آخر کیا چھوڑا۔ میں نے عرض کیا کہ آدھا چھوڑ آیا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو کچھ رکھا تھا سب لے آئے۔ حضورﷺ نے فرمایا ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا۔ انہوں نے فرمایا ان کے لئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو چھوڑ آیا۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول پاکﷺ کے نام کی برکت اور ان کی رضا اور خوشنودی کو چھوڑ آیا۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ (فضائل اعمال ص۷۶)

حضرت ابوذرؓ کا اپنے خادم کو تنبیہ کرنا

حضرت ابوذر غفاریؓ مشہور صحابی ہیں، یہ بڑے زاہد لوگوں میںسے تھے، مال نہ اپنے پاس جمع رکھتے تھے نہ چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا جمع رکھے۔ مالدار لوگوں سے ہمیشہ لڑائی رہتی تھی، اس لئے حضرت عثمانؓ کے حکم سے ربذہ میں رہنے لگے تھے جو جنگل میں ایک معمولی سی آبادی تھی۔ حضرت ابوذرؓ کے پاس چند اونٹ تھے اور ایک ناتواں ضعیف سا چرواہا تھا، جو ان کی خبر گیری کرتا تھا، اسی پر گزر تھا، ایک شخص قبیلہ بنوسلیم کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ تمنا ظاہر کی کہ میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کے فیوض سے استفادہ حاصل کروں، میں آپ کے چرواہے کی مدد کرتا رہوں گا اور آپ کی برکات سے فائدہ بھی حاصل کروں گا۔ حضرت ابوذرؓ نے ارشاد فرمایا کہ میرا دوست وہ ہے جو میری اطاعت کرے اگر تم بھی میری اطاعت کے لئے تیار ہو تو شوق سے رہو، کہنا نہ مانو توہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔ سلیمی صاحب نے عرض کیا کس چیز میں آپ اپنی اطاعت چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ جب میں اپنے مال میں سے کسی چیز کے خرچ کرنے کا حکم کروں تو عمدہ سے عمدہ مال خرچ کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے قبول کیا اور رہنے لگا۔

اتفاق سے ایک دن اُن سے کسی نے ذکر کیا کہ پانی پر کچھ لوگ رہتے ہیں جو ضرورت مند ہیں، کھانے کے محتاج ہیں۔ مجھ سے فرمایا ایک اونٹ لے آئو۔ میں گیا، میں نے دیکھا کہ ایک بہت عمدہ اونٹ ہے جو نہایت قمیتی، نہایت کارآمد ہے۔ میں نے حسبِ وعدہ اس کو لے جانے کا ارادہ کیا، مگر مجھے خیال ہوا کہ غرباء کو کھلانا ہی تو ہے اور یہ اونٹ بہت زیادہ کارآمد ہے۔ حضرت کی اور متعلقین کی ضرورت کا ہے اس کو چھوڑ کر اس سے ذرا کم درجہ کی عمدہ اونٹنی کہ اس اونٹ کے علاوہ اور باقی سب سے بہتر تھی، لے کر خدمت میں حاضر ہوا۔ فرمایا کہ تم نے خیانت کی۔ میں سمجھ گیا اور واپس آکر وہی اونٹ لے گیا۔ پاس بیٹھنے والوں سے ارشاد فرمایا کہ دو آدمی ایسے ہیں جو اللہ کے واسطے ایک کام کریں؟ دو آدمی اٹھے، انہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ فرمایا کہ اس کو ذبح کرو اور ذبح کے بعد گوشت کاٹ کر جتنے گھر پانی پر آباد ہیں ان کو شمار کرکے ابوذرؓ کا یعنی اپنا گھر بھی ایک عدد ان میں شمار کرلو اور سب کو برابر تقسیم کردو، میرے گھر بھی اتنا ہی جائے جتنا ان میں سے ہر گھر میں جائے۔ انہوں نے تعمیلِ ارشاد کی اور تقسیم کردیا۔ اس کے بعد مجھے بلایا اور فرمایا کہ تونے میری وصیت عمدہ مال خرچ کرنے کی جان بوجھ کر چھوڑی یا بھول گیا تھا، اگر بھول گیا تو معذور ہے۔ میں نے عرض کیا کہ بھولا تو نہیں تھا میں نے اول اسی اونٹ کو لیا تھا مگر مجھے خیال ہوا کہ یہ بہت کارآمد ہے، آپ کو اکثر اس کی ضرورت رہتی ہے، محض اس وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔ فرمایا کہ محض میری ضرورت سے چھوڑا تھا۔ عرض کیا کہ محض آپ کی ضرورت کی وجہ سے چھوڑا تھا۔ فرمایا اپنی ضرورت کا دن بتائوں۔ میری ضرورت اور احتیاج کا دن وہ ہے جس دن قبر کے گڑھے میں اکیلا ڈال دیا جائوں گا۔ وہ دن میری ضرورت اور احتیاج کا ہے، مال کے اندر تین حصہ دار ہیں، ایک تقدیر جو مال لے جانے میں کسی چیز کا انتظار نہیں کرتی، اچھا برا ہر قسم کا لے جاتی ہے۔ دوسرا وارث جو اس کے انتظار میں ہے کہ تو مرے تو وہ لے لے۔ اور تیسرا حصہ دار تو خود ہے اگر ہوسکتا ہو اور تیری طاقت میں ہو تو تینوں حصہ داروں میں سے زیادہ عاجز نہ بن۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا مما تحبون‘‘ اس لئے جو مال مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس کو میں اپنے لئے آگے چلتا کروں تاکہ وہ میرے لئے جمع رہے۔ (فضائل اعمال ص۸۲)    

رحمت عالمﷺ نے غزوہ تبوک میں جسے غزوہ عسرت بھی کہتے ہیں، جوکہ رجب 9 ہجری میں پیش آیا، جہاد فی سبیل اﷲ کے لئے وسائل کی کمی اور قلت کے پیش نظر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے چندہ کی اپیل کی۔ ہر صحابی نے اپنی طاقت کے مطابق اس غزوہ کے لئے مالی تعاون کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت میرے پاس بہت مال تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے بڑھ سکتا ہوں تو وہ یہی موقع ہے چنانچہ میں گھر گیا اور اپنا نصف مال لاکر آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ رسول اﷲﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: عمر! اپنے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟میں نے عرض کیا اے اﷲ کے رسولﷺ! نصف مال آپ کی خدمت اقدس میں پیش کردیا ہے اور نصف مال اپنے اہل وعیال کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ ازاں بعد حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ تشریف لائے۔ آپ پیشہ کے اعتبار سے رب کے ایک کامیاب اور مالدار تاجر تھے لیکن آپ نے اپنی ساری دولت مظلوموں کی داد رسی اور اسلام کی سربلندی کے لئے وقف کردی۔ بالخصوص اس موقع پر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ایثار و توکل کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا جس کی مثالیں شاذ ہی ملتی ہیں۔ آپ نے اپنا کل اثاثہ لاکر حبیب خداﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ابوبکر! اپنے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ جناب صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا

اﷲ اور اس کے رسولﷺ کو چھوڑ آیا ہوں


صدقہ کی فضیلت حدیث نبوی میں: 

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کو وہ صدقہ وخیرات زیادہ پسند ہے جو زندگی اور صحت کی حالت میں کیا جائے۔‘‘ (بخاری) 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’زندگی اور تندرستی کی حالت میں ایک درہم خیرات کرنا موت کے وقت سو درہم خیرات کرنے سے بہتر ہے۔‘‘ (ابوداود)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدقہ وخیرات کرنے سے آنے والی بلائیں اور مصیبتیں رک جاتی ہیں‘ لہٰذا صدقہ وخیرات میں جلدی کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے سے مال ودولت میں کمی نہیں آتی‘ بلکہ اس میں اللہ پاک بیش بہا برکت عطا فرماتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: {وما انفقتم من شیء فہو یخلفہ وہو خیر الرازقین} (سبأ: ۳۹) ’’تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی ینے والا ہے۔‘‘ اللہ کے راستے میں علانیہ اور خفیہ دونوں طریقوں سے خرچ کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: {الذین ینفقون اموالہم باللیل والنہار سرا وعلانیۃ فلہم أجرہم عند ربہم ولا خوف علیہم ولا ہم یحزنون} (بقرہ: ۲۷۴) ’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔‘‘